کیا بچے دل جان لیوا اس کا ہر انداز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا بچے دل جان لیوا اس کا ہر انداز ہے  (1930) 
by نشتر چھپروی

کیا بچے دل جان لیوا اس کا ہر انداز ہے
غمزہ ہے عشوہ ہے شوخی ہے ادا ہے ناز ہے

محفل عشرت میں میرا دل نوا پرداز ہے
نالۂ حسرت مرا گویا صدائے ساز ہے

توبہ بھی کر لیں گے ہم جب وقت اس کا آئے گا
حضرت واعظ در توبہ ابھی تو باز ہے

ہوگی پھر بے اعتنائی ہے ابھی تو التفات
پھر وہی انجام ہوگا پھر وہی آغاز ہے

دیکھ تو اس بت کو زاہد اور کہہ ایمان سے
تیری حوروں میں یہ رعنائی ہے یہ انداز ہے

دل جگر چھد جاتے ہیں اور کچھ خبر ہوتی نہیں
وہ نگاہ ناز گویا تیر بے آواز ہے

میری ہستی اک معمہ ہے جسے سمجھا نہ میں
یا خدا یہ بھی تری قدرت کا کوئی راز ہے

در قفس کا کھول دے صیاد اطمینان سے
تیرے صید شوق کو کب خواہش پرواز ہے

سن کے میرا قصۂ غم ان کا کہنا ناز سے
واہ کیا طرز بیاں ہے واہ کیا انداز ہے

دل لگاتے ہی مجھے لالے پڑے ہیں جان کے
اس کا کیا انجام ہوگا جس کا یہ آغاز ہے

ہائے نشترؔ وہ مرا ہمدرد دل غم خوار دل
اب کہاں ہے ہم نشیں کوئی کہاں ہم راز ہے

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse