کیا باغ جہاں میں نام ان کا سرو کہہ کہہ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا باغ جہاں میں نام ان کا سرو کہہ کہہ کر
by ولی اللہ محب

کیا باغ جہاں میں نام ان کا سرو کہہ کہہ کر
کئی آہیں جو نکلی تھیں مرے سینے سے رہ رہ کر

سحاب و برق ہیں یا شیشہ و ساغر ہیں کیا ہم تم
کہ ہم جس وقت روویں تم ہنسو اس وقت قہہ قہہ کر

ہمارا گریہ دیکھے چشم کم سے کیوں نہ دریا کو
سمندر سے کئی جاتے ہیں یاں اک پل میں بہہ بہہ کر

ہوئے جس گل کے ہم چاہ ذقن میں غرق کر دیں گے
مرے یک قطرۂ شبنم میں بلبل ڈوب چہہ چہہ کر

دھمک وہ آہ کے نعرے کی اپنے ہے کہ گردوں سے
ستارے ٹوٹے پڑتے ہیں کنویں جاتے ہیں دہ دہ کر

برائے امتحاں عشاق پر تیغے چلاتا ہے
جو زخمی ہو کے گرتے ہیں تو رہ جاتا ہے دہ دہ کر

دلا کوچے سے اس کے آج اگر تو خیر سے آیا
یہی دن کل بھی ہے در پیش شیخی سے نہ پہہ پہہ کر

نماز شیخ ہو اتمام کیوں کر سرقہ دشمن ہے
کہ ٹوٹے ہے وضو ہر بار جب کھاتے ہیں عہہ عہہ کر

عمارت تو ڈھے پھر بن سکے ہے پر ترے ہاتھوں
ہوئے ہیں خاک کیا کیا قصر دل اے شوخ ڈھہ ڈھہ کر

نہ ہو رخ سے ترے اے آہ فوجوں کا مقابل رخ
کیا تو نے سواروں کو پیادہ مات شہہ شہہ کر

لب بام آ کے ابرو کی جھمک دن صلح کے دکھلا
کہ عالم دیکھنے کو شہر کا دوڑے ہے مہہ مہہ کر

زمیں میں گڑ گئے دیکھ اس قد رعنا کو خجلت سے
لب جو پر اکڑتے تھے کھڑے کیا سرو لہہ لہہ کر

وفائیں روز اول سے مری تجھ کو نہ خوش آئیں
جفا میں میں تیری آخر ہوا بھر عمر سہہ سہہ کر

ادھر تو جامہ چین کھولے ہے اس گل رو کے دامن کو
ادھر بلبل رکھے ہے رخت گل خجلت سے تہہ تہہ کر

لڑاتا ہے اگر اغیار سے تو روز و شب آنکھیں
محبؔ اپنے پر اے ظالم نگاہ لطف گہہ گہہ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse