کوئی نادان نہ دانا اچھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی نادان نہ دانا اچھا  (1927) 
by عاشق حسین بزم آفندی

کوئی نادان نہ دانا اچھا
آپ اچھے تو زمانا اچھا

نہ ہوا دل کا لگانا اچھا
غلطی کی نہیں جانا اچھا

ایسے بگڑوں کا بنانا اچھا
وہ جو روٹھیں تو منانا اچھا

آئے ہیں غیر کو لے کر ہمراہ
ایسے آنے سے نہ آنا اچھا

ساتھ ہے زیر زمیں تاروں کے
یہ ملا اس کو خزانہ اچھا

یہ مقابل ہے وہ سر چڑھتا ہے
آئنے سے تو ہے شانا اچھا

مجھ سے ملنے میں بہانے نہ کرو
خون اس سے تو بہانا اچھا

اے حنا جاتے ہیں وہ غیر کے گھر
رنگ ایسے میں جمانا اچھا

لوٹ ہوں خال رخ یار پہ میں
ہو جو قسمت میں یہ دانا اچھا

بادشہ سے بھی نہیں دبتے تھے
تھا لڑکپن کا زمانا اچھا

درد ہو جس میں حکایت ہے وہ خوب
جو ہو رنگیں وہ فسانا اچھا

طور پر کام تھا کیا جلوے کا
دل میں آنکھوں میں سمانا اچھا

یہی اے بزمؔ رہے دل میں خیال
ہم برے سب سے زمانا اچھا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D9%86%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D9%86_%D9%86%DB%81_%D8%AF%D8%A7%D9%86%D8%A7_%D8%A7%DA%86%DA%BE%D8%A7