کلی جو گل کی چٹک رہی ہے طبیعت اپنی کھٹک رہی ہے
کلی جو گل کی چٹک رہی ہے طبیعت اپنی کھٹک رہی ہے
جہاں میں وحشت بھٹک رہی ہے ہزار سر کو پٹک رہی ہے
چمن میں ہے جو کہ شاخ سنبل عروس گل کی وہ یا ہے کاکل
تجھے خبر ہے کچھ اس کی بلبل جو اس کے منہ پر لٹک رہی ہے
وہاں مجھے شوق دل تو لے جا جہاں نہ ساغر نہ ہوئے مینا
برنگ ساقی ہر ایک بیٹھا شراب خالص ٹپک رہی ہے
چمن میں بلبل یہی پکاری لو میکشوں کی پھر آئی باری
زباں پہ شیشے کے ہے یہ جاری شراب لو یاں ڈھلک رہی ہے
کہیں پہ مجمع ہے میکشوں کا کہیں اکھاڑا ہے ان بتوں کا
کہیں برسنا ہے بادلوں کا کہیں پہ بجلی چمک رہی ہے
مژہ کی الفت میں زار بن کر رہا ہوں موئے نگار بن کر
یہ سانس سینے میں خار بن کر جگر کے اندر کھٹک رہی ہے
نہ اس میں آئی ذرا کدورت گلوں کی میلی نہ سیاحت
صبا چمن میں پئے لطافت گلوں کے جامہ چھٹک رہی ہے
نہیں بگولا میان ہاموں جو مجھ سے پوچھو تو صاف کہہ دوں
تلاش لیلہ میں روح مجنوں ہر ایک جانب بھٹک رہی ہے
غرور حسن اے نگار کب تک چمن کے اوپر بہار کب تک
رہو گے زیب کنار کب تک خزاں ہر اک گل کو تک رہی ہے
جہاں نہ بھٹی نہ مے کدہ ہے عجب طرح کا مگر سماں ہے
خم فلک میں یہ کیا بھرا ہے شراب صافی ٹپک رہی ہے
کہوں میں فقرہ وہ ہے ہنسی کا چراغ محفل کا ہے فلیتا
چھٹا جو شملہ ہے شیخ جی کا یہ ان کی شیخی لٹک رہی ہے
بہار لایا ہے ساغر گل بھرے ہیں گویا پیالۂ مل
نہیں ہے محفل میں شور قلقل چمن میں بلبل چہک رہی ہے
لڑائی کس نے ہے آنکھ اوپر نگاہ اس کی ہے مثل خنجر
میں دیکھتا ہوں کہ چشم اختر فلک کے اوپر جھپک رہی ہے
ہمارے دل میں نہیں ہے کینہ کہ جیسے بے جرم ہو نگینہ
یہ بحر ہستی کا ہے سفینہ اسی پہ دنیا پھڑک رہی ہے
بہار ہے دور مے کشی کی گلوں کی رنگت ابھی ہے پھیکی
عجیب حالت ہے منتہیؔ کی ابھی سے چھاتی دھڑک رہی ہے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |