کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے  (1933) 
by ناصری لکھنوی

کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے
رات بھر رویا کیا دل درد کی آواز سے

میرے دل کو تم نے چھیڑا کچھ عجب انداز سے
رنگ محفل بڑھ گیا اس ساز کی آواز سے

دیکھتے ہیں وہ رخ بیمار اس انداز سے
دل دھڑکتا ہے شکست رنگ کی آواز سے

سامنے آ کوئی کہہ دے اس قدر انداز سے
دیکھ دل بڑھتے ہیں تیرے تیر کی آواز سے

آج یہ راہ جنوں میں کس نے رکھا ہے قدم
ہل گیا سارا جہاں زنجیر کی آواز سے

بے پری سے رہ گئی بلبل کی ساری آرزو
در قفس کے وا ہیں اور مجبور ہے پرواز سے

اس قدر صدمہ ہوا رنگ گلستاں اڑ گیا
پر شکستہ بلبلوں کی حسرت پرواز سے

دیکھ کر جلوہ بھلا کیا ہوش میں رہتے کلیم
دل تو ٹکڑے ہو چکا تھا اک نئی آواز سے

دیکھنا ہے اس مہم میں کس طرح کرتا ہے صبر
امتحاں دل کا وہ لیں گے پاؤں کی آواز سے

موت کی ہے نیند سوتے ہیں شہیدان وفا
تو صدا دے جاگ اٹھیں شاید تری آواز سے

بزم میں ان کی گیا دل ناصریؔ میں بھی سنوں
آج کرتے ہیں جو باتیں وہ مرے ہم راز سے

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse