کسی کی کسی کو محبت نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کسی کی کسی کو محبت نہیں ہے  (1914) 
by پروین ام مشتاق

کسی کی کسی کو محبت نہیں ہے
ابھی اس کی دنیا کو لذت نہیں ہے

اگر تم کو ملنے کی فرصت نہیں ہے
مجھے بھی زیادہ ضرورت نہیں ہے

بہت خوش نما ہے گلستان عالم
مگر سیر کرنے کی فرصت نہیں ہے

بہت سے گھروں میں خزانے ہیں مدفوں
نہیں ہے تو گنج قناعت نہیں ہے

کہاں تک نہ بے ہوش و بے خود کرے گی
مئے وصل ہے کوئی شربت نہیں ہے

خیالات میں اپنے ہوں غرق واعظ
مجھے کہنے سننے کی فرصت نہیں ہے

دکھاتے نہیں شرم سے روئے روشن
کوئی کامیابی کی صورت نہیں ہے

تزلزل میں کس واسطے ہے زمانہ
شب ہجر ہے یہ قیامت نہیں ہے

کہاں اے پری تو کہاں حور جنت
تری اس کی آپس میں نسبت نہیں ہے

مری قمریوں کے سوا کون انساں
یہ شمشاد ہے اس کی قامت نہیں ہے

وہ اٹھے تو لاکھوں ہی فتنے اٹھیں گے
وہ قامت بھی کم از قیامت نہیں ہے

نہ کیوں دل لگے یاں وہ ہے اور خلوت
یہ حورا نہیں ہے یہ جنت نہیں ہے

جفائیں نہ کیجے نہ کیجے نہ کیجے
تحمل کی اب مجھ کو طاقت نہیں ہے

تلاطم میں مصروف ہے قطرہ قطرہ
کوئی شے یہاں بے حقیقت نہیں ہے

جہاں تک بنے تم سے بیداد کر لو
اگر آنے والی قیامت نہیں ہے

لرزتا ہے کیوں ڈر سے اے جسم لاغر
یہ دھڑکا ہے دل کا قیامت نہیں ہے

حسینوں کی چاہت حسینوں کی الفت
مصیبت بھی ہے اور مصیبت نہیں ہے

تمہیں عاشق اور مجھ کو معشوق لاکھوں
یہاں آدمیوں کی قلت نہیں ہے

سنبھل کر ذرا ناز و اغماض کیجے
حسینوں کی دنیا میں قلت نہیں ہے

زمانہ میں ہونے کو سب کچھ ہے پرویںؔ
ہمیں کیا امید شفاعت نہیں ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D8%B3%DB%8C_%DA%A9%DB%8C_%DA%A9%D8%B3%DB%8C_%DA%A9%D9%88_%D9%85%D8%AD%D8%A8%D8%AA_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%DB%81%DB%92