کبھی بالوں کو سلجھایا تو ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی بالوں کو سلجھایا تو ہوتا  (1878) 
by کشن کمار وقار

کبھی بالوں کو سلجھایا تو ہوتا
مجھے شانے سے الجھایا تو ہوتا

بگڑ جاتا ابھی منہ آئنے کا
تمہارے روبرو آیا تو ہوتا

گل یوسف زلیخائی دکھاتا
چمن میں وہ عزیز آیا تو ہوتا

زبان بوسۂ لب دے کر اے یار
نہ دیدے دل کو للچایا تو ہوتا

مجھے وارفتگی جانے نہ دیتی
ولیکن تم نے بلوایا تو ہوتا

وہ کہتے غیر سے کہتے پر اے دل
زباں پر مدعا لایا تو ہوتا

رخ رنگیں ترا گر دیکھتا گل
نہ اڑ جاتا تو پتایا تو ہوتا

سہارے پر سحر ہوتی شب ہجر
نہ آتے وعدہ فرمایا تو ہوتا

نہ پایا تم کو میں نے تو گلا کیا
کبھی خود آپ کو پایا تو ہوتا

مسیحائی نہ کرتا گو وہ کافر
جنازے پر مرے آیا تو ہوتا

نہ دیتا لے کے دل وہ پر بلا سے
مرا دل ہاتھ میں لایا تو ہوتا

میں تھا گم کردۂ عشق کمر یار
کبھی عنقا سے ڈھونڈھوایا تو ہوتا

میں کرتا شکر مقدم میں فدا جاں
فرشتہ موت کا آیا تو ہوتا

نہ رہتا دست وحشت آستیں میں
جنوں نے پاؤں پھیلایا تو ہوتا

میں اڑ چلتا بہ رنگ صوت ناقوس
وقارؔ اس بت نے بلوایا تو ہوتا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%D8%A8%D8%A7%D9%84%D9%88%DA%BA_%DA%A9%D9%88_%D8%B3%D9%84%D8%AC%DA%BE%D8%A7%DB%8C%D8%A7_%D8%AA%D9%88_%DB%81%D9%88%D8%AA%D8%A7