کام آساں نظر آیا مجھے مشکل ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کام آساں نظر آیا مجھے مشکل ہو کر  (1923) 
by عبد الہادی وفا

کام آساں نظر آیا مجھے مشکل ہو کر
حاصل عمر ملا حسرت حاصل ہو کر

دو جہاں مجھ کو ملے ہیں تپش دل ہو کر
اک نظر دیکھ تو لوں دیدۂ بسمل ہو کر

کس پر آتا ہے یہ الزام خدا خیر کرے
میں تمہیں بھول گیا غیر پہ مائل ہو کر

کون سی بات ہے آئینے میں جو مجھ میں نہیں
بیٹھ تو جاؤ ذرا میرے مقابل ہو کر

وحشت بیکسیٔ شوق لئے جاتی ہے
نقش پا آگے بڑھا دورئ منزل ہو کر

خواہش مرگ سر رشتۂ امید سہی
آخر الجھے نہ کہیں وہ گرہ دل ہو کر

پردہ پوشی بھی مزے دے گئی اللہ اللہ
سامنے آئی اجل خندۂ قاتل ہو کر

نشۂ خواب عدم سرمہ بیداری ہے
آنکھیں کھل جاتی ہیں اس پردہ میں غافل ہو کر

صف محشر ہے مرا حلقۂ آغوش نہیں
کیا بچے جاتے ہو اغیار میں شامل ہو کر

دل میں رہ کر بھی تمنا کی خبر رکھتے نہیں
قافلے سیکڑوں گزرے پس محفل ہو کر

میری نظروں میں ہے خورشید قیامت کی نمود
برسوں پہلو میں رہا آبلۂ دل ہو کر

آنکھیں پھر اٹھنے لگیں شرم کا پردہ بن کر
لو وہ پھر آتے ہیں رنگ رخ محفل ہو کر

گلۂ تشنگی شوق ہے اک طول امل
مل گئے خاک میں آخر لب ساحل ہو کر

تیرہ بختی سے ملا روز جزا کو حصہ
رہ گیا ہے رخ افسوس پہ اک تل ہو کر

صاف آتا ہے نظر تم ہو مٹانے والے
کیا کیا پردۂ تقدیر نے حائل ہو کر

اہل دنیا کی طرف دست دعا کیوں اٹھیں
بھیک اغیار سے اک دوست کے سائل ہو کر

جلوہ ان کا ہے کلیم ان کے ہیں ایمن ان کا
طور کیوں جلنے لگا بیچ میں حائل ہو کر

اثر غمزۂ شیریں دل خسرو میں سہی
رہ گیا سینۂ فرہاد اگر سل ہو کر

اے وفاؔ طالع ناشاد کو رشک آتا ہے
ہم رہے جاتے ہیں نقصان میں کامل ہو کر


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DA%A9%D8%A7%D9%85_%D8%A2%D8%B3%D8%A7%DA%BA_%D9%86%D8%B8%D8%B1_%D8%A2%DB%8C%D8%A7_%D9%85%D8%AC%DA%BE%DB%92_%D9%85%D8%B4%DA%A9%D9%84_%DB%81%D9%88_%DA%A9%D8%B1