ڈھونڈ لیں ہم کو ہماری جو خبر رکھتے ہیں
ڈھونڈ لیں ہم کو ہماری جو خبر رکھتے ہیں
ہم کو دیکھیں وہ اگر حسن نظر رکھتے ہیں
واقف راہ ہیں منزل کی خبر رکھتے ہیں
کچھ سمجھ سوچ کے ہم عزم سفر رکھتے ہیں
آنکھ کو وقف سر راہ گزر رکھتے ہیں
خاک ہونے کے لیے ذوق نظر رکھتے ہیں
عشق اور عشق میں اک شان اثر رکھتے ہیں
حسن کی آنکھ محبت کی نظر رکھتے ہیں
اب وہ آنکھوں سے سمجھ لیتے ہیں حسرت دل کی
چشم بد دور نگاہوں پہ نظر رکھتے ہیں
ان کے جلوؤں کی حقیقت تو انہیں سے پوچھو
ہم تو بجلی کے چمکنے کی خبر رکھتے ہیں
اک کشش ہے کہ جو کھنچے لیے جاتی ہے ہمیں
ورنہ دیوانے بھی منزل کی خبر رکھتے ہیں
دوراندیشیٔ الفت نے کیا ہے محتاط
ہم نگاہوں میں تری راہ گزر رکھتے ہیں
ایک مرکز پہ سمٹ آئی ہے دنیائے جمال
کس کی تصویر کو ہم پیش نظر رکھتے ہیں
دل لگی عشق کی ہے حسن کا سنجیدہ مذاق
ہم کو دھوکا ہے کہ ہم درد جگر رکھتے ہیں
دیکھ لیں گے ترے جلوے بھی جو فرصت ہوگی
ہم ابھی دل کی تجلی پہ نظر رکھتے ہیں
ادب حسن ہے ورنہ یہ محبت والے
سحر آنکھوں میں خیالوں میں اثر رکھتے ہیں
آج کس بزم میں لے آئی ہے تقدیر منیرؔ
کہ فرشتے بھی مرے سامنے سر رکھتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |