ڈھونڈ لیں ہم کو ہماری جو خبر رکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ڈھونڈ لیں ہم کو ہماری جو خبر رکھتے ہیں
by منیر بھوپالی

ڈھونڈ لیں ہم کو ہماری جو خبر رکھتے ہیں
ہم کو دیکھیں وہ اگر حسن نظر رکھتے ہیں

واقف راہ ہیں منزل کی خبر رکھتے ہیں
کچھ سمجھ سوچ کے ہم عزم سفر رکھتے ہیں

آنکھ کو وقف سر راہ گزر رکھتے ہیں
خاک ہونے کے لیے ذوق نظر رکھتے ہیں

عشق اور عشق میں اک شان اثر رکھتے ہیں
حسن کی آنکھ محبت کی نظر رکھتے ہیں

اب وہ آنکھوں سے سمجھ لیتے ہیں حسرت دل کی
چشم بد دور نگاہوں پہ نظر رکھتے ہیں

ان کے جلوؤں کی حقیقت تو انہیں سے پوچھو
ہم تو بجلی کے چمکنے کی خبر رکھتے ہیں

اک کشش ہے کہ جو کھنچے لیے جاتی ہے ہمیں
ورنہ دیوانے بھی منزل کی خبر رکھتے ہیں

دوراندیشیٔ الفت نے کیا ہے محتاط
ہم نگاہوں میں تری راہ گزر رکھتے ہیں

ایک مرکز پہ سمٹ آئی ہے دنیائے جمال
کس کی تصویر کو ہم پیش نظر رکھتے ہیں

دل لگی عشق کی ہے حسن کا سنجیدہ مذاق
ہم کو دھوکا ہے کہ ہم درد جگر رکھتے ہیں

دیکھ لیں گے ترے جلوے بھی جو فرصت ہوگی
ہم ابھی دل کی تجلی پہ نظر رکھتے ہیں

ادب حسن ہے ورنہ یہ محبت والے
سحر آنکھوں میں خیالوں میں اثر رکھتے ہیں

آج کس بزم میں لے آئی ہے تقدیر منیرؔ
کہ فرشتے بھی مرے سامنے سر رکھتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse