چلا آنکھوں سے جب کشتی میں وہ محبوب جاتا ہے
Appearance
چلا آنکھوں سے جب کشتی میں وہ محبوب جاتا ہے
کبھی آنکھیں بھر آتی ہیں کبھی جی ڈوب جاتا ہے
کہو کیونکر نہ پھر ہووے گا دل روشن زلیخا کا
جہاں یوسف سا نور دیدۂ یعقوب جاتا ہے
جہاں کے خوب رو مجھ سے چرائیں کیوں نہ پھر آنکھیں
جو کوئی خورشید کو دیکھے سو وہ محجوب جاتا ہے
مرا آنسو بھی قاصد کی طرح اک دم نہیں رکتا
کسی بیتاب کا گویا لیے مکتوب جاتا ہے
یقیںؔ ہرگز کیا مت کر اتی تعریف لڑکوں کی
اسی باتوں ستی مضمون سا محبوب جاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |