پڑ گئی دل میں ترے تشریف فرمانے میں دھوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پڑ گئی دل میں ترے تشریف فرمانے میں دھوم
by انعام اللہ خاں یقین

پڑ گئی دل میں ترے تشریف فرمانے میں دھوم
باغ میں مچتی ہے جیسے فصل گل آنے میں دھوم

تیری آنکھوں نے نشے میں اس طرح مارا ہے جوش
ڈالتے ہیں جس طرح بد مست مے خانہ میں دھوم

چاند کے پرتو سے جوں پانی میں ہو جلوے کا حشر
تیرے منہ کے عکس نے ڈالی ہے پیمانے میں دھوم

ابر جیسے مست کو شورش میں لاوے دل کے بیچ
مچ گئی اک بار ان بالوں کے کھل جانے میں دھوم

بوئے مے آتی ہے منہ سے جوں کلی سے بوئے گل
کیوں یقیںؔ سے جان کرتے ہو مکر جانے میں دھوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse