پئے گل گشت سنا ہے کہ وہ آج آتے ہیں
پئے گل گشت سنا ہے کہ وہ آج آتے ہیں
پھولوں کی بھی یہ خوشی ہے کہ کھلے جاتے ہیں
بہر تسکین دل احباب یہ فرماتے ہیں
آپ کہیے تو ابھی جا کے بلا لاتے ہیں
گدگدی کر کے ہنساتے ہیں جو غش میں احباب
کس کے رومال سے تلوے مرے سہلاتے ہیں
آپ کے ہوتے کسی اور کو چاہوں توبہ
کس طرف دھیان ہے کیا آپ یہ فرماتے ہیں
میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے
مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں
بلبلو باغ میں غافل نہ کہیں ہو جانا
ہر طرف گھات میں صیاد نظر آتے ہیں
خوب پہچان لیا ہم نے تمہیں دل دے کر
سچ کہا ہے کہ جو کھوتے ہیں وہی پاتے ہیں
مجھ کو باور نہیں سچ سچ یہ بتا دے ہم دم
تو نے کس سے یہ سنا ہے کہ وہ آج آتے ہیں
کیا دل و دیدہ بھی ہرکارے ہیں سبحان اللہ
لاکھ پردوں میں کوئی ہو یہ خبر لاتے ہیں
دیکھ اچھا نہیں جوہرؔ کہیں مائل ہونا
جب بھی سمجھاتے تھے اب بھی تجھے سمجھاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |