وہیں جی اٹھتے ہیں مردے یہ کیا ٹھوکر سے چھونا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہیں جی اٹھتے ہیں مردے یہ کیا ٹھوکر سے چھونا ہے
by ولی اللہ محب

وہیں جی اٹھتے ہیں مردے یہ کیا ٹھوکر سے چھونا ہے
وہ رفتار اور وہ قامت قیامت کا نمونہ ہے

گھٹا آتا ہے دم یہ عشق نے آتش ہے سلگائی
دل سوزاں سے یا قسمت دھواں آنکھوں کا دونا ہے

ارے او خانہ آباد اتنی خوں ریزی یہ قتالی
کہ ایک عاشق نہیں کوچہ ترا ویران سونا ہے

کباب دل اگرچہ سوختہ ہے چکھ تو اے کیفی
یہ انگاروں پر آہ آتشیں نے خوب بھونا ہے

مبصر جوہر خط پر کہیں ہیں اس کے ابرو کو
سروہی کوئی ہے بے کل کہ جس کا اب یہ کونا ہے

طلسم اک حسن خلق اللہ کے عالم کا دل پہ ہے
پھرو ایران و ترکستان فرنگستان و یونا ہے

ہمارے آہ تیر بے کماں نے خانۂ دل سے
یہ رخ پھیرا کہ تا بام فلک باندھا ستونا ہے

جہاں اہل ورع مجلس میں ہوں وہ بخش لینے کو
نشاں نقش دنی کا ساتھ اک لڑکا جمونا ہے

اگر تصویر رنگ زرد عاشق خوبرو دیکھیں
کوئی بتلائے گا سونا گھر کا کوئی کونا ہے

دیا میں پان اسے اک ریختہ پڑھ کر لگا کہنے
یہ اینٹی کھوئی کا کتھا ہے اور کنکر کا چونا ہے

تجھے دیتا ہے بازی اے محبؔ بچ جائیو اس سے
کہ نٹ کھٹ اس کے یار اور وہ دغاباز ایک گھونا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse