وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں (1914)
by پروین ام مشتاق
308331وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں1914پروین ام مشتاق

وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں
روز اقرار بھول جاتے ہیں

وہ جو بے وجہ مسکراتے ہیں
سیکڑوں وہم دل میں آتے ہیں

اشک حسرت نکل کے دامن میں
جان سے ہاتھ دھوئے آتے ہیں

جب تم آتے نہیں ہو وعدہ پر
ملک الموت کو بلاتے ہیں

سو گیا بخت جب سے رو رو کر
سارے ہم سایوں کو جگاتے ہیں

ان کو شرم و حیا نہیں آتی
دل چرا کر نظر چراتے ہیں

بے خطا ہے وہ آسماں مجرم
اس کو الزام کیوں لگاتے ہیں

جان کر بن گئے ہیں ہم بھولے
چٹکیوں میں کسے اڑاتے ہیں

تیرے کوچہ میں ہم بھی اب تھک کر
دل کے مانند بیٹھے جاتے ہیں

غیر کیا اور اس کی ہستی کیا
آپ کیوں مفت خوف کھاتے ہیں

کوئی تازہ ستم کیا ایجاد
دیکھ کر وہ جو مسکراتے ہیں

آگ پانی میں کیوں لگاتے ہو
نیک جو لوگ ہیں بجھاتے ہیں

تم مرے دل میں ہو تو دیکھوں میں
حور و غلماں کہیں سماتے ہیں

میں نے پوچھی جو وجہ قتل کہا
ٹھہرو دم لے کے ہم بتاتے ہیں

عشق تیرے طفیل دنیا کے
طنزیں سنتے ہیں طعنے کھاتے ہیں

بے سبب کیا بگڑنے کا باعث
آپ پرویںؔ کو بھی بناتے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%88%D9%82%D8%AA_%D9%BE%D8%B1_%D8%A2%D8%AA%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D9%86%DB%81_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA