نیک و بد کی جسے خبر ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیک و بد کی جسے خبر ہی نہیں  (1914) 
by پروین ام مشتاق

نیک و بد کی جسے خبر ہی نہیں
شر ہے کم بخت وہ بشر ہی نہیں

وہ ہیں کس حال میں خبر ہی نہیں
سر بھی نیچا ہے اک نظر ہی نہیں

ہاتھ خالی ہے مال و زر ہی نہیں
کیا اڑیں جبکہ بال و پر ہی نہیں

مے کی بابت خیال کر واعظ
اس میں نفعے بھی ہیں ضرر ہی نہیں

شرم سے تیرے روئے روشن کے
شمس بھی زرد ہے قمر ہی نہیں

جس کے باعث ہے زندگی بے لطف
لطف یہ ہے اسے خبر ہی نہیں

راہ ہر دل کو ہوتی ہے دل سے
میرے دل کی انہیں خبر ہی نہیں

یار تو قتل عام کر ڈالے
تیغ باندھے کہاں کمر ہی نہیں

ضبط کی نسبت آپ کا ہے خیال
میں ہوں عاشق مرے جگر ہی نہیں

میرے سینہ کو چیر کر دیکھو
دل بھی روتا ہے چشم تر ہی نہیں

آسماں لاکھ بار دشمن ہو
کیا ہو برباد میرے گھر ہی نہیں

کون کہتا ہے مجھ کو سودائی
ایک مدت سے میرے سر ہی نہیں

ہم قیامت سے بھی ہوئے بے فکر
شب ہجراں کی جب سحر ہی نہیں

پاؤں پھیلائے مست ہوتے ہیں
فقرا کیونکہ مال و زر ہی نہیں

وہ تو مجھ کو جلائے جائیں گے
بعد مردن بھی عمر بھر ہی نہیں

بعد مردن ہے حشر کا کھٹکا
میری جاں فکر سے مفر ہی نہیں

مرغ بے وجہ چیخے جاتا ہے
یہ نہ بولے تو جانور ہی نہیں

ظلم پر اب ہے آسماں نادم
سر بھی نیچا ہے اک نظر ہی نہیں

توبہ توبہ ہزارہا شرطیں
کیا بتاؤں اگر مگر ہی نہیں

پھرتے ہو سیکڑوں ندیدوں میں
تم کو خوف نظر گزر ہی نہیں

آدمی آدمی ہے عزت سے
آب جس میں نہ ہو گہر ہی نہیں

کم ہے یہ زاد راہ اے پرویںؔ
تم کو اندازۂ سفر ہی نہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DB%8C%DA%A9_%D9%88_%D8%A8%D8%AF_%DA%A9%DB%8C_%D8%AC%D8%B3%DB%92_%D8%AE%D8%A8%D8%B1_%DB%81%DB%8C_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA