نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا  (1902) 
by میر محمد سلطان عاقل

نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا
مجھے تو نے ظالم نہ رکھا کہیں کا

عبث امتحاں میں لگاتے ہو وقفہ
بھروسا ہے کیا میری جان حزیں کا

مجھے گھر میں گردش ہے پتلی کی صورت
یہ اعجاز ہے چشم سحر آفریں کا

پرانا نہ فتنہ ترے گھر سے اٹھا
نیا آسماں ہے مگر اس زمیں کا

کبھی میرے تن میں کبھی اس کے گھر میں
یہی شغل ہے میری جان حزیں کا

غضب ہے مری اس سے تکرار وعدہ
ستم ہے جو موقع ملا اب نہیں کا

سنا تو نے عاقلؔ عجب رات گزری
محبت کا مذکور نکلا کہیں کا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DB%81_%D8%B2%D9%86%D8%AF%DB%81_%D9%86%DB%81_%D9%85%D8%B1%D8%AF%DB%81_%D9%86%DB%81_%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7_%D9%86%DB%81_%D8%AF%DB%8C%DA%BA_%DA%A9%D8%A7