Jump to content

نہ جس میں آرزو ہوتی نہ جس میں مدعا ہوتا

From Wikisource
نہ جس میں آرزو ہوتی نہ جس میں مدعا ہوتا (1930)
by نشتر چھپروی
324072نہ جس میں آرزو ہوتی نہ جس میں مدعا ہوتا1930نشتر چھپروی

نہ جس میں آرزو ہوتی نہ جس میں مدعا ہوتا
مجھے بھی ایک دل یا رب کوئی ایسا دیا ہوتا

شب وعدہ وہ آتا بھی تو کیا اس کے سوا ہوتا
جو میں صرف وفا ہوتا تو وہ گرم جفا ہوتا

شب فرقت اگر نالہ مرے دل کا رسا ہوتا
فلک کیا چیز ہے عرش معلیٰ ہل گیا ہوتا

دکھا دیتا اگر میں داغہائے دل کبھی ان کو
مرا ذمہ جو پھر مشق ستم کا حوصلہ ہوتا

دیا تھا دل تو دیتا عشق بھی اپنا اسے یا رب
ملا تھا سر تو سودا بھی ترا ہی یا خدا ہوتا

خطا کیا یار کی اس میں جو قبل از وقت موت آئی
وفا کرتی جو میری عمر تو وعدہ وفا ہوتا

نہ آتا تھا انہیں کیا مجھ کو مٹی میں ملا دینا
مگر ڈر تھا کہ ہوتا خاک بھی تو کیمیا ہوتا

عدو کے دستخط سے خط مجھے بھیجا ہے کافر نے
مقدر کا جو لکھا تھا نہ کیوں کر وہ ادا ہوتا

تری کوتاہ‌‌ بینی نے تجھے کھویا ہے اے واعظ
خدا کو جان جاتا گر بتوں سے آشنا ہوتا

سر و تن کا چلا آتا ہے جھگڑا ایک مدت سے
مدد کرتی تری تلوار تو کچھ فیصلہ ہوتا

ترے صدقے نگاہ ناز کیوں اغماض کرتی ہے
ہماری بات بن جاتی ترا نقصان کیا ہوتا

کہیں پر لطف ہے یہ قصۂ فرہاد و مجنوں سے
ہمارے دل کا دکھڑا بھی کبھی صاحب سنا ہوتا

نہ آئے تم نہ آتے بھیجتے تصویر ہی اپنی
مرے دل کو بہلنے کا کوئی تو مشغلا ہوتا

غم جاناں نہ دیتا ساتھ میرا تو بھی فرقت میں
اسی کی طرح ظالم کاش تو بھی بے وفا ہوتا

مرے دل سے وہ رہ رہ کر کسی کا ناز سے کہنا
عجب اک چیز تو ہوتا اگر بے مدعا ہوتا

سناتا قصۂ غم تجھ میں غم خواری اگر ہوتی
دکھاتا درد دل تجھ کو جو تو درد آشنا ہوتا

دل وحشی نہ کہتا تھا کہ باز آ عشق گیسو سے
مری سنتا تو کیوں کافر گرفتار بلا ہوتا

جناب خضر دیں گے ساتھ کیا صحرائے الفت میں
دل آفت طلب تو ہی ہمارا رہنما ہوتا

یہ کیا سودائے حوران خیالی تجھ کو ہے زاہد
کسی کافر ادا پر تو فدا مرد خدا ہوتا

بڑے ناز و نعم سے ہم نے اے دل تجھ کو پالا تھا
خدائی ہم سے پھر جاتی نہ لیکن تو جدا ہوتا

کھنچے جاتے تھے وہ خنجر کی صورت وصل میں نشترؔ
نکلتی خاک حسرت خاک پورا حوصلہ ہوتا


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.