Jump to content

نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو

From Wikisource
نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو (1930)
by نشتر چھپروی
324069نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو1930نشتر چھپروی

نہ بکھرایا کرو تم بیٹھے بیٹھے زلف پیچاں کو
خدا کے واسطے دیکھو مرے حال پریشاں کو

عجب انداز سے پس پس کے ہونٹوں سے نکلتی ہے
کروں قربان تیری اک نہیں پر سینکڑوں ہاں کو

خدا جانے مزا آتا ہے کیا اس میں کہ ہنس ہنس کر
وہ پہروں دیکھتے رہتے ہیں میرے زخم خنداں کو

انہیں پھر اس نے بھڑکایا ہوئے گرم جفا پھر وہ
الٰہی آگ لگ جائے ہماری چشم گریاں کو

قیامت کا سماں پھرنے لگا ہے میری آنکھوں میں
کہ جب سے میں نے دیکھا ہے کسی کی چشم فتاں کو

بڑھی دیوانگی میری کچھ ایسی عشق گیسو میں
کہ میرے نام سے ہوتی ہے وحشت اب بیاباں کو

گئے وہ دن مناتے تھے کسی کے ساتھ ہم ساون
کہ اب تو دیکھتے رہتے ہیں اپنی چشم گریاں کو

ابھی تو ہے شروع فصل گل جوش جنوں تازہ
رفو کیوں لوگ کرتے ہیں مرے چاک گریباں کو

ترے آتے ہی جھاڑو پھر گئی کس کس کو روئیں ہم
الم کو یاس کو حسرت کو بیتابی کو ارماں کو

مرے شیون سے تو آزردہ تھے پھر رو دئیے آخر
نظر آیا جو میں جاتا ہوا شہر خموشاں کو

بڑھے پھر ناخن وحشت کہ ایام بہار آئے
ذرا ہشیار رہنا اے ہمارے زخم کے ٹانکو

مری آنکھیں ہی دشمن ہو گئیں حق میں مرے آخر
اسی رستے اتارا اس نے دل میں تیر مژگاں کو

بلا سے گر ہماری جان مضطر پر گرے بجلی
اسی انداز سے اک بار پھر غرفے سے تم جھانکو

ہوئی جاتی ہے کیا کیا لوٹ اس پر رحمت باری
کوئی دیکھے تو محشر میں ہماری شرم عصیاں کو

نہ رکھا جانے کے قابل مجھے بیتابیٔ دل نے
کیا تھا میں نے کس مشکل سے راضی اس کے درباں کو

مجھے سر پھوڑنے کی آرزو تھی یوں ہوئی پوری
گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

مرے گریہ کی طغیانی ہے گویا نوح کا طوفاں
گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

کسی یوسف لقا کی یاد میں رویا ہوں میں اتنا
گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

مرا بے خانماں ہونا مری قسمت میں لکھا تھا
گرایا سر پہ سیل اشک نے دیوار زنداں کو

مری جانب سے ہے دل میں غبار اس بے مروت کے
نکالے گا وہ پھر کیا خاک میرے دل کے ارماں کو

خلش کا ذائقہ مد نظر ہے مجھ کو اے ہمدم
جگہ کیوں کر نہ دوں دل میں کسی کی نوک مژگاں کو

وہ آئے تو مٹے جاتے ہیں کیوں یہ ماجرا کیا ہے
الٰہی ہو گیا یہ کیا مری حسرت کو ارماں کو

پھڑکتی ہے رگ گردن مری کیوں آج پھر نشترؔ
چڑھایا سان پر قاتل نے شاید تیغ براں کو


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.