نہ ابتدا ہوں کسی کی نہ انتہا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ابتدا ہوں کسی کی نہ انتہا ہوں میں
by منیر بھوپالی

نہ ابتدا ہوں کسی کی نہ انتہا ہوں میں
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں

جو نا مراد ازل ہے وہ التجا ہوں میں
اثر سے دور جو رہتی ہے وہ دعا ہوں میں

ترے جمال کا آئینہ بن گیا ہوں میں
ہزار پردوں میں چھپ کر چمک رہا ہوں میں

الٰہی کس کی نگاہوں سے گر گیا ہوں میں
ہر ایک آنکھ کو حسرت سے تک رہا ہوں میں

ترا کرم تو خدا جانے کیا ستم ہوگا
کہ جب ستم پہ ترے جان دے رہا ہوں میں

نہ باغ سے مجھے مطلب نہ باغ والوں سے
بھٹک کے دشت سے گلشن میں آ گیا ہوں میں

تجھے خبر بھی ہے او مڑ کے دیکھنے والے
تری نگاہ پہ کیا کیا لٹا رہا ہوں میں

مری نظر سے ٹپکتی ہے آرزو دل کی
صدائے‌ قلب ہوں خاموش التجا ہوں میں

مدد کا وقت ہے اے ناخدائے کشتئ دل
تجلیات کی موجوں میں گھر گیا ہوں میں

ہر ایک آنکھ مجھے تک رہی ہے حیرت سے
منیرؔ کس کی نگاہوں کا آئنہ ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse