نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا  (1914) 
by پروین ام مشتاق

نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا
کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا

برا ہو بد گمانی کا وہ نامہ غیر کا سمجھا
ہمارے ہاتھ میں تو پرچۂ اخبار تھا کیا تھا

صدا سنتے ہی گویا مردنی سی چھا گئی مجھ پر
یہ شور صور تھا یا وصل کا انکار تھا کیا تھا

خدا کا دوست ہے تعمیر دل جو شخص کرتا ہو
خلیل اللہ بھی کعبہ کا اک معمار تھا کیا تھا

نہ آئے تم نہ آؤ میں نے کیا کچھ منتیں کی تھیں
تمہیں نے خود کیا تھا عہد یہ اقرار تھا کیا تھا

ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی
خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا

ملا تو ہم سے محفل میں جو شب کو غیر کیوں بگڑا
ترا حاکم تھا ٹھیکا دار تھا مختار تھا کیا تھا

مری میت پہ ماتم کرتے ہو اللہ رے چالاکی
خبر ہے خود تمہیں مدت سے میں بیمار تھا کیا تھا

ہزاروں حسرتیں بیتاب تھیں باہر نکلنے کو
وہ سوتے میں بھی پرویںؔ فتنۂ بیدار تھا کیا تھا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DB%81_%D8%A2%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D8%B1_%DA%A9%DB%92_%D9%88%D8%B9%D8%AF%DB%81_%D9%88%D8%B5%D9%84_%DA%A9%D8%A7_%D8%A7%D9%82%D8%B1%D8%A7%D8%B1_%D8%AA%DA%BE%D8%A7_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AA%DA%BE%D8%A7