نہیں ہے اشک سے یہ خون ناب آنکھوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں ہے اشک سے یہ خون ناب آنکھوں میں
by باقر آگاہ ویلوری

نہیں ہے اشک سے یہ خون ناب آنکھوں میں
بھرا ہے رنگ سے تیرے شہاب آنکھوں میں

کہاں نکل سکے آنسو نظر کو جائے نہیں
رکھا ہوں شکل کو تیری میں داب آنکھوں میں

الوہی کس کی تجلی سے ہو گیا ہوں دو چار
جھمک رہا ہے سدا ماہتاب آنکھوں میں

ہوئے ہیں جب سے وہ کیف نگہ کے آئنہ دار
بجائے اشک بھری ہے شراب آنکھوں میں

عمل سے اپنی زباں کس طرح نہ ہو بیکار
جہاں ہو رسم سوال و جواب آنکھوں میں

ہوا ہوں جب سے میں اطلاق اس کے سے آگاہ
جہاں میں دیکھوں ہے واں بو تراب آنکھوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse