نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی  (1916) 
by قمر ہلالی

نکلنے کو ہے دم میرا مگر ہے آرزو باقی
ملیں گے خاک میں لیکن رہے گی جستجو باقی

میں اپنا راز کہنے کو بلایا تھا تجھے ہمدم
مگر افسوس میں ہی رہ سکا اور ہے نہ تو باقی

یہ دنیا مٹنے والی ہے تو پھر اس پر بھروسہ کیا
فنا ہو جائیں گے سارے رہے گا تو ہی تو باقی

کراماً کاتبیں جا کر یہ عزرائیل سے کہنا
ٹھہر جاؤ ابھی کچھ یار سے ہے گفتگو باقی

وضو زاہد کا آب جو سے اور میرا ہے آنسو سے
وضو بہہ جائے گا اس کا رہے میرا وضو باقی

طہارت جسم کی گو ہو گئی ہے غسل ظاہر سے
صفائی کے لئے دل کی ابھی ہے شست و شو باقی

جلا کر آتش فرقت نے دل کی خاک اڑائی ہے
نہیں سینہ میں کچھ باقی مگر ہے ایک ہو باقی

ہلالی کر دیا تو نے قمرؔ کو ایک چلو میں
رہے محشر تلک ساقی ترا جام و سبو باقی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DA%A9%D9%84%D9%86%DB%92_%DA%A9%D9%88_%DB%81%DB%92_%D8%AF%D9%85_%D9%85%DB%8C%D8%B1%D8%A7_%D9%85%DA%AF%D8%B1_%DB%81%DB%92_%D8%A2%D8%B1%D8%B2%D9%88_%D8%A8%D8%A7%D9%82%DB%8C