نکالی جائے کس ترکیب سے تقریر کی صورت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکالی جائے کس ترکیب سے تقریر کی صورت  (1914) 
by پروین ام مشتاق

نکالی جائے کس ترکیب سے تقریر کی صورت
وہ آئینہ کی صورت اور میں تصویر کی صورت

گرفتار محبت کر لیا باتوں ہی باتوں میں
تسلسل سے نمایاں ہو گئی زنجیر کی صورت

زیادہ آئینہ سے ہے منور مصحف عارض
اور اس پر خال مشکیں آیۂ تطہیر کی صورت

ترے تیور بدلتے ہی زمانہ ہو گیا دشمن
ہلال عید بھی ظاہر ہوا شمشیر کی صورت

ستم ہو جائے گا گر بال بھی بیکا ہوا اس کا
نکل کر آہ سینہ سے گئی ہے تیر کی صورت

کبھی میٹھی نگاہیں ہیں کبھی تیور بدلتے ہیں
نہ مرتا ہوں نہ جیتا ہوں یہ ہے تعزیر کی صورت

مزہ کیا اس بت بے پیر سے دل کے لگانے کا
جو خلوت میں ہو بت محفل میں ہو تصویر کی صورت

خفا ہوتے ہی کچھ کا کچھ بھوؤں کا ہو گیا نقشہ
کبھی خنجر کی صورت اور کبھی شمشیر کی صورت

جسے مل جائے خاک پاک دشت کربلا پرویںؔ
پلٹ کر بھی نہ دیکھے وہ کبھی اکسیر کی صورت


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DA%A9%D8%A7%D9%84%DB%8C_%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%92_%DA%A9%D8%B3_%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%8C%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%B1_%DA%A9%DB%8C_%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA