نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس  (1914) 
by پروین ام مشتاق

نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس
دوسری اور بھی تلوار ہے تلوار کے پاس

دشمنوں کا مری قسمت سے ہے قابو مجھ پر
یار کے پاس ہے دل یار ہے اغیار کے پاس

یاد رکھنا جو ہوئی وعدہ خلافی ان کی
بسترہ آن جمے گا تری دیوار کے پاس

قیدیٔ زلف کی قسمت میں ہے رخسار کی سیر
شکر ہے باغ بھی ہے مرغ گرفتار کے پاس

چہرہ بھی برق بھی دل لینے میں گیسو بھی بلا
ایک سا معجزہ ہے کافر و دیں دار کے پاس

غیر بے جرم ہیں اور میں ہوں وفا کا مجرم
کون آتا بھلا مجھ سے گنہ گار کے پاس

قبر میں سوئیں گے آرام سے اب بعد فنا
آئے گا خواب عدم دیدۂ بے دار کے پاس

اس کی کیا وجہ مرے ہوتے وہاں کیوں نہ رہیں
کیوں رہے زلف سیہ آپ کے رخسار کے پاس

ہوشیاری سے ہو پرویںؔ چمن حسن کی سیر
دام اور دانہ ہیں دونوں رخ دل دار کے پاس


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%D8%B1%DA%AF%D8%B3%DB%8C%DA%BA_%D8%A2%D9%86%DA%A9%DA%BE_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%A6%DB%92_%D8%AE%D9%85_%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%DA%A9%DB%92_%D9%BE%D8%A7%D8%B3