مے گلگوں کے جو شیشے میں پری رہتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مے گلگوں کے جو شیشے میں پری رہتی ہے
by ولی اللہ محب

مے گلگوں کے جو شیشے میں پری رہتی ہے
چشم مستوں میں عجب جلوہ گری رہتی ہے

ہے پھندیت ایک وہ بانکا کہ لڑے جب تک آنکھ
مردمک پنجۂ مژگاں میں بھری رہتی ہے

باغ میں جب وہ گل تازہ بہار آتا ہے
بوئے گل پھر تو ہوا پر ہی دھری رہتی ہے

نالہ بلبل ہے چمن زار ہے دل داغوں سے
آہ تا صبح نسیم سحری رہتی ہے

محتسب دختر رز ہم سے جو تو آج ملائے
بزم مستوں میں تری معتبری رہتی ہے

سلطنت فقر کی جن کو ہی نہیں پیش نگاہ
کوڑی اور اشرفی یکساں نظری رہتی ہے

لب و چشم اپنے ہیں اک عالم خشکی و تری
عشق میں سلطنت بحر و بری رہتی ہے

اشک باری سے غم و درد کی کھیتی باڑی
لہلہی سی نظر آتی ہے ہری رہتی ہے

رو ترا کحل بصر ہو نہ اسے تو بے وجہ
چشم میں آئنے کے بے بصری رہتی ہے

آبرو پاتی تھی خشکی بہ کمال استغنا
آب دریا کے نہ ہونے میں تری رہتی ہے

توشہ خانہ ہے ترا گنبد گردوں جس میں
مہر و مہ سے تری دستار زری رہتی ہے

ہے جو اغیار کے ہر دم کی تری آمد و شد
جسم میں جان ہماری سفری رہتی ہے

دین و دل بکتے ہیں ہوتے ہیں غم درد خرید
ترے کوچے میں لگی اک گزری رہتی ہے

بے نشاں زخم سے اس تیر نگہ کے دل میں
درد رہتا ہے نہ پیکاں نہ سری رہتی ہے

دل کو بھی ڈوبتی کیوں کر نہ نظر آئے محبؔ
کشتیٔ چشم تو پانی سے بھری رہتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse