مے گلگوں کے جو شیشے میں پری رہتی ہے
مے گلگوں کے جو شیشے میں پری رہتی ہے
چشم مستوں میں عجب جلوہ گری رہتی ہے
ہے پھندیت ایک وہ بانکا کہ لڑے جب تک آنکھ
مردمک پنجۂ مژگاں میں بھری رہتی ہے
باغ میں جب وہ گل تازہ بہار آتا ہے
بوئے گل پھر تو ہوا پر ہی دھری رہتی ہے
نالہ بلبل ہے چمن زار ہے دل داغوں سے
آہ تا صبح نسیم سحری رہتی ہے
محتسب دختر رز ہم سے جو تو آج ملائے
بزم مستوں میں تری معتبری رہتی ہے
سلطنت فقر کی جن کو ہی نہیں پیش نگاہ
کوڑی اور اشرفی یکساں نظری رہتی ہے
لب و چشم اپنے ہیں اک عالم خشکی و تری
عشق میں سلطنت بحر و بری رہتی ہے
اشک باری سے غم و درد کی کھیتی باڑی
لہلہی سی نظر آتی ہے ہری رہتی ہے
رو ترا کحل بصر ہو نہ اسے تو بے وجہ
چشم میں آئنے کے بے بصری رہتی ہے
آبرو پاتی تھی خشکی بہ کمال استغنا
آب دریا کے نہ ہونے میں تری رہتی ہے
توشہ خانہ ہے ترا گنبد گردوں جس میں
مہر و مہ سے تری دستار زری رہتی ہے
ہے جو اغیار کے ہر دم کی تری آمد و شد
جسم میں جان ہماری سفری رہتی ہے
دین و دل بکتے ہیں ہوتے ہیں غم درد خرید
ترے کوچے میں لگی اک گزری رہتی ہے
بے نشاں زخم سے اس تیر نگہ کے دل میں
درد رہتا ہے نہ پیکاں نہ سری رہتی ہے
دل کو بھی ڈوبتی کیوں کر نہ نظر آئے محبؔ
کشتیٔ چشم تو پانی سے بھری رہتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |