میں کیا کہوں کہ حال ہے کیا ہجر یار میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں کیا کہوں کہ حال ہے کیا ہجر یار میں  (1930) 
by نشتر چھپروی

میں کیا کہوں کہ حال ہے کیا ہجر یار میں
دل اختیار میں نہ جگر اختیار میں

دشمن کو دیکھتے ہیں کنکھیوں سے بزم میں
کچھ شوخیاں بھی ہیں نگۂ شرمسار میں

رضواں کو بھی تو ہے تری محفل کی آرزو
میرا ہے کیا حساب میں ہوں کس شمار میں

جانے نہ دوں گا پھر دل ناداں کو ہاتھ سے
آ جائے اب کی گر وہ مرے اختیار میں

ان کا مسل مسل کے مرے دل کو پوچھنا
کیوں درد ہو رہا ہے دل بے قرار میں

سرمہ لگا رہے ہیں وہ میرے غبار کا
مٹ کر سما گیا ہوں غرض چشم یار میں

واعظ کی بہکی باتوں میں آؤں خدا کی شان
میں اور مے سے توبہ کروں اور بہار میں

نشترؔ وہ دن کہاں ہیں وہ راتیں کدھر گئیں
قابو میں تھا وہ شوخ تو دل اختیار میں

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse