میں چپ رہوں تو گویا رنج و غم نہاں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں چپ رہوں تو گویا رنج و غم نہاں ہوں  (1914) 
by پروین ام مشتاق

میں چپ رہوں تو گویا رنج و غم نہاں ہوں
بولوں تو سر سے پا تک حسرت کی داستاں ہوں

مسرور ہو تو مجھ سے میں تجھ سے شادماں ہوں
تو میرا میہماں ہو میں تیرا میزباں ہوں

کہتی ہے ان کی مستی ہوش آئے تو میں پوچھوں
اے بے خودی بتا دے اس وقت میں کہاں ہوں

ارشاد پر نظر ہے خاموش ہوں کہ گویا
چاہو تو بے زباں ہوں چاہو تو با زباں ہوں

جاں گھل چکی ہے غم میں اک تن ہے وہ بھی مہمل
معنی نہیں ہیں بالکل مجھ میں اگر بیاں ہوں

میں ہوں جنوں کے ہاتھوں مخلوق کا تماشہ
نا مہرباں ہوں خود پر دنیا پہ مہرباں ہوں

اللہ رے اس کی چوکھٹ ہے بوسہ گاہ عالم
کہتا ہے سنگ اسود میں سنگ آستاں ہوں

کہتا ہے میرا نالہ لب تک میں آتے آتے
سو جا تھما ہوں رہ میں اس درجہ ناتواں ہوں

نفرت ہو جس کو مجھ سے ملنے کا اس سے حاصل
نظروں میں کیوں سبک ہوں خاطر پہ کیوں گراں ہوں

مدت میں تم ملے ہو کیوں ذکر غیر آئے
میں اپنے سائے سے بھی خلوت میں بد گماں ہوں

چپ رہ گیا پیامی لیکن یہ خیر گزری
خط نے کہا کہ سنیے پرویںؔ کی میں زباں ہوں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%DB%8C%DA%BA_%DA%86%D9%BE_%D8%B1%DB%81%D9%88%DA%BA_%D8%AA%D9%88_%DA%AF%D9%88%DB%8C%D8%A7_%D8%B1%D9%86%D8%AC_%D9%88_%D8%BA%D9%85_%D9%86%DB%81%D8%A7%DA%BA_%DB%81%D9%88%DA%BA