میٹھی ہے ایسی بات اس کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میٹھی ہے ایسی بات اس کی  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

میٹھی ہے ایسی بات اس کی
لونڈی ہے اک نبات اس کی

سمجھا نہ میں ایک بات اس کی
مجھ پر کیا کائنات اس کی

عالم ہے بے ثبات اے دل
اک ذات کو ہے ثبات اس کی

مہ اس کا ہے آفتاب اس کا
دن اس کا ہے اور رات اس کی

کس منہ سے کروں میں وصف اس کا
ہے عقل سے دور ذات اس کی

ممبر پہ جو بک رہا ہے واعظ
کب سنتا ہوں خیر بات اس کی

ہے دولت حسن پاس تیرے
دیتا نہیں کیوں زکوٰۃ اس کی

ہے جو کہ شہید تیغ تسلیم
ہے مثل خضر حیات اس کی

دم دے کے نہ نقد دل کو لے لے
چل جائے کہیں نہ گھات اس کی

جو دل کہ ہے غرق بہر دنیا
کیوں کر ہوگی نجات اس کی

دل جاتا ہے سوئے کوئے قاتل
خالق رکھے حیات اس کی

دم دے کے لے آیا یار کو دل
کیا رہ گئی آج بات اس کی

تنہا نہیں منتہیؔ کسی جا
تقدیر ہے اس کے ساتھ اس کی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%B9%DA%BE%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D8%A7%DB%8C%D8%B3%DB%8C_%D8%A8%D8%A7%D8%AA_%D8%A7%D8%B3_%DA%A9%DB%8C