میری خبر نہ لینا اے یار ہے تعجب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری خبر نہ لینا اے یار ہے تعجب
by ولی اللہ محب

میری خبر نہ لینا اے یار ہے تعجب
جی سے بچے جو مجھ سا بیمار ہے تعجب

وعدہ خلافیوں سے تیری ہے دل میں شبہہ
ہووے جو حشر میں بھی دیدار ہے تعجب

تم کہتے ہو کہ وہ آتا ہے پاس تیرے
اس یار سے تو یارو بسیار ہے تعجب

ہستی سے اک نفس کا ہے فاصلہ عدم تک
تس پر بھی ہے پہنچنا دشوار ہے تعجب

کافی نہ تھا تمہارے ابرو کا اک اشارہ
کھینچی جو عاشقوں پر تلوار ہے تعجب

سو بار دین و ایماں گم ہوئے تو عجب کیا
ٹوٹے جو عہد الفت اک یار ہے تعجب

کیوں کر کٹے گی یا رب اوقات غم زدوں کی
کوئی نہیں جہاں میں غم خوار ہے تعجب

ناصح مرا گریباں سینے کا فکر مت کر
ثابوت اس میں پانا اک تار ہے تعجب

پامال دل کئے ہیں عالم کے ہر قدم میں
سیکھی یہ تم نے کس سے رفتار ہے تعجب

گالی ہوئی ہے اب تو تکیہ کلام تیرا
سیدھی زباں کسو سے گفتار ہے تعجب

اسلام میں یہ کیسا انکار کفر سے ہے
تسبیح میں پروئے زنار ہے تعجب

دیوانہ ہے محبؔ تو تیری شکستہ حالی
دیکھے جو آنکھ اٹھا کر دل دار ہے تعجب

ہر بات میں جو کہیے مجبور ہے قباحت
انساں کو گر سمجھئے مختار ہے تعجب

کچھ گو مگو ہے یارو یہ امر بندگی کا
افکار ہے اچنبھا اقرار ہے تعجب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse