میری خبر نہ لینا اے یار ہے تعجب
میری خبر نہ لینا اے یار ہے تعجب
جی سے بچے جو مجھ سا بیمار ہے تعجب
وعدہ خلافیوں سے تیری ہے دل میں شبہہ
ہووے جو حشر میں بھی دیدار ہے تعجب
تم کہتے ہو کہ وہ آتا ہے پاس تیرے
اس یار سے تو یارو بسیار ہے تعجب
ہستی سے اک نفس کا ہے فاصلہ عدم تک
تس پر بھی ہے پہنچنا دشوار ہے تعجب
کافی نہ تھا تمہارے ابرو کا اک اشارہ
کھینچی جو عاشقوں پر تلوار ہے تعجب
سو بار دین و ایماں گم ہوئے تو عجب کیا
ٹوٹے جو عہد الفت اک یار ہے تعجب
کیوں کر کٹے گی یا رب اوقات غم زدوں کی
کوئی نہیں جہاں میں غم خوار ہے تعجب
ناصح مرا گریباں سینے کا فکر مت کر
ثابوت اس میں پانا اک تار ہے تعجب
پامال دل کئے ہیں عالم کے ہر قدم میں
سیکھی یہ تم نے کس سے رفتار ہے تعجب
گالی ہوئی ہے اب تو تکیہ کلام تیرا
سیدھی زباں کسو سے گفتار ہے تعجب
اسلام میں یہ کیسا انکار کفر سے ہے
تسبیح میں پروئے زنار ہے تعجب
دیوانہ ہے محبؔ تو تیری شکستہ حالی
دیکھے جو آنکھ اٹھا کر دل دار ہے تعجب
ہر بات میں جو کہیے مجبور ہے قباحت
انساں کو گر سمجھئے مختار ہے تعجب
کچھ گو مگو ہے یارو یہ امر بندگی کا
افکار ہے اچنبھا اقرار ہے تعجب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |