ملتی ہے اسے گوہر شب تاب کی میراث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملتی ہے اسے گوہر شب تاب کی میراث
by ولی اللہ محب

ملتی ہے اسے گوہر شب تاب کی میراث
لی مجھ دل صد پارہ نے سیماب کی میراث

حسرت سے تری چشم کی نرگس نے چمن میں
پائی ہے کسی دیدۂ بے خواب کی میراث

یاں جو دل روشن کہ وہ خالی ہے خودی سے
پہنچائی فلک نے اسے مہتاب کی میراث

اک بیڑۂ پاں ہاتھ سے تو اپنے جو بخشے
طوطی کو ملے غیب سے سرخاب کی میراث

پاسنگ ہیں لعل اس کے بھی جس سنگ کو پہنچے
اک قطرہ مرے اشک کے خونباب کی میراث

رو رو کے مری چشم نے اس بحر جہاں سے
لی خانہ خرابی کے لئے آب کی میراث

یہ درد و غم عشق دلا جان غنیمت
پہنچی تری حب سے تجھے احباب کی میراث

دریائے محبت سے محبؔ لے ہی کے چھوڑی
مجھ اشک نے آخر در نایاب کی میراث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse