ملتی ہے اسے گوہر شب تاب کی میراث
Appearance
ملتی ہے اسے گوہر شب تاب کی میراث
لی مجھ دل صد پارہ نے سیماب کی میراث
حسرت سے تری چشم کی نرگس نے چمن میں
پائی ہے کسی دیدۂ بے خواب کی میراث
یاں جو دل روشن کہ وہ خالی ہے خودی سے
پہنچائی فلک نے اسے مہتاب کی میراث
اک بیڑۂ پاں ہاتھ سے تو اپنے جو بخشے
طوطی کو ملے غیب سے سرخاب کی میراث
پاسنگ ہیں لعل اس کے بھی جس سنگ کو پہنچے
اک قطرہ مرے اشک کے خونباب کی میراث
رو رو کے مری چشم نے اس بحر جہاں سے
لی خانہ خرابی کے لئے آب کی میراث
یہ درد و غم عشق دلا جان غنیمت
پہنچی تری حب سے تجھے احباب کی میراث
دریائے محبت سے محبؔ لے ہی کے چھوڑی
مجھ اشک نے آخر در نایاب کی میراث
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |