مقتل میں آج حوصلہ دل کا نکل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مقتل میں آج حوصلہ دل کا نکل گیا  (1927) 
by عاشق حسین بزم آفندی

مقتل میں آج حوصلہ دل کا نکل گیا
سب اپنے پاؤں سے گئے میں سر کے بل گیا

منظور دل کا تھا انہیں لینا سو لے چکے
اب کیوں وہ پاس آئیں گے مطلب نکل گیا

قسمت تو دیکھیے جو شب وصل آئی بھی
شکوے شکایتوں ہی میں سب وقت ٹل گیا

آتے ہی فصل گل کے جنوں کا ہوا یہ جوش
دیوانہ ان کا جامہ سے باہر نکل گیا

باقی ہیں بعد قتل بھی الفت کی گرمیاں
دل کی تڑپ نہ کم ہوئی گو دم نکل گیا

ان کی نگاہ قہر سے اب کیا بچے گا دل
پلٹا نہیں جو تیر کماں سے نکل گیا

اس ڈر سے نالہ کر نہیں سکتا فراق میں
مر جاؤں گا جو وہ دل نازک دہل گیا

کانٹوں کی آبلوں سے غنیمت تھی نوک جھونک
وحشی کا تیرے دشت میں کچھ جی بہل گیا

ثابت قدم ہمیں ہیں نہ غیروں کو منہ لگاؤ
کوئی نہ ہوگا ان میں سے جوبن جو ڈھل گیا

اے بزمؔ مجھ سے کرتے وہ اقرار وصل کیا
وہ تو یہ کہئے ان کی زباں سے نکل گیا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%D9%82%D8%AA%D9%84_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A2%D8%AC_%D8%AD%D9%88%D8%B5%D9%84%DB%81_%D8%AF%D9%84_%DA%A9%D8%A7_%D9%86%DA%A9%D9%84_%DA%AF%DB%8C%D8%A7