مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے
by ولی اللہ محب

مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے
جو یہ جی ہی لینے پہ ہے نظر تو قبول ہو یہ نماز ہے

یہی کھوج لینے کے واسطے پھروں ہوں میں ساتھ نسیم کے
کہ چمن میں کوئی ہے گل کہیں تری بو سے محرم راز ہے

کوئی اور قصہ شروع کر جو تمام کہہ سکے ہم نفس
کہ فسانہ زلف سیاہ کا شب ہجر سے بھی دراز ہے

ہوئی دل میں جب سے ہے شعلہ زن مری آتش عشق کی ہر نفس
جو پتنگ و شمع میں دیکھیے نہ وہ سوز ہے نہ گداز ہے

بخدا کہ مدت عشق میں یہی بات فرض ہے ناصحا
کہ صنم کے نقش قدم سوا نہیں سجدہ گاہ نماز ہے

نہ برابر اس کو بھی زاہدو گنو اپنے کعبے کی راہ کے
رہ عشق میں جو قدم رکھو تو بہت نشیب و فراز ہے

کوئی شغل اس سے نہیں بھلا کہ محبؔ ہو عشق میں مبتلا
اسی راہ حق کا بنے رہنما یہی عشق اگرچہ مجاز ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.