محو فریاد ہو گیا ہے دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محو فریاد ہو گیا ہے دل
by باقر آگاہ ویلوری

محو فریاد ہو گیا ہے دل
آہ برباد ہو گیا ہے دل

سینہ کادی میں اپنے ناخن سے
رشک فرہاد ہو گیا ہے دل

دیکھتے دیکھتے ستم تیرا
سخت ناشاد ہو گیا ہے دل

کرتے ہی کرتے تیرے قد کا خیال
مثل شمشاد ہو گیا ہے دل

ہو کے پابند تیرے کاکل سے
سر سے آزاد ہو گیا ہے دل

الفت اہل بیت سے آگاہؔ
حیدرآباد ہو گیا ہے دل


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.