محبت ہے تو پھر اندازۂ شوق وفا کیوں ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت ہے تو پھر اندازۂ شوق وفا کیوں ہو
by منیر بھوپالی

محبت ہے تو پھر اندازۂ شوق وفا کیوں ہو
شکایت درد کی کیوں ہو جفاؤں کا گلہ کیوں ہو

کسی کے کان تک پہنچے وہ میری التجا کیوں ہو
بر آنا جس کا ممکن ہو وہ میرا مدعا کیوں ہو

یہ راہ عشق ہے اے دل مآل اندیشیاں کیسی
جنوں ہے دستگیر اپنا کوئی زنجیر پا کیوں ہو

حیات آرزو پروردۂ آغوش طوفاں ہے
جسے ہو فکر ساحل کی وہ میرا ناخدا کیوں ہو

نہ یہ فریاد ہوگی پھر نہ یہ آہیں نہ یہ نالے
دل ناداں محبت میں حقیقت آشنا کیوں ہو

وہ نظریں خاک میں جن کو ملانا بھی نہیں آتا
انہیں نظروں سے وابستہ ہمارا مدعا کیوں ہو

حدود شش جہت سے ماورا جب اس کے جلوے ہیں
تو پرواز محبت تا بہ حد دو سرا کیوں ہو

خدا کے یاد آنے کا بڑا اچھا ذریعہ ہے
شناسائے کرم وہ بانی جور و جفا کیوں ہو

محیط عرش و کرسی جب خدا کا ظل رحمت ہے
منیرؔ اپنی خطا کوشی کی کوئی انتہا کیوں ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse