محبت میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے مشکل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے مشکل کا
by منیر بھوپالی

محبت میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے مشکل کا
جہاں خود دل ہی بن جاتا ہے دشمن ہستئ دل کا

نظر کیسی خیالوں سے ہے اونچا سلسلہ دل کا
پتہ خود پوچھتا ہے عشق مجھ سے میری منزل کا

ہر اک کروٹ پہ درد عشق کی تڑپا نہیں جاتا
کہاں تک ساتھ دے گی زندگی بے تابئ دل کا

مری آنکھوں میں موجیں ہیں مری نظروں میں طوفاں ہے
سفینہ میرا پروردہ نہیں آغوش ساحل کا

مری ذوق خلش اک مستقل دنیائے راحت ہے
کہ ہر اک خار پہ ہوتا ہے دھوکا مجھ کو منزل کا

مزے تنہائیوں کے بھی کبھی آتے ہیں محفل میں
کبھی تنہائیاں بھی لطف دے جاتی ہیں محفل کا

پلا ساغر نگاہ مست سے بھی کام لے ساقی
مجھے احساس کچھ ہونے لگا ہے حق و باطل کا

اگر سمجھو تو ہر قطرہ محبت کی کہانی ہے
نہیں یہ اشک اک پیغام ہے ٹوٹے ہوئے دل کا

صدائے شوق نظارہ نہ ساز بے نیازی ہے
بس اک نغمہ فضا میں گونجتا ہے پردۂ دل کا

ترے در پر مجھے یہ فطرت مجبور لائی ہے
نہ جانے آج کس دنیا میں عالم ہے مرے دل کا

غم پنہاں کے پردے میں نشاط کامرانی ہے
زمانہ سے الگ ہٹ کر زمانہ ہے مرے دل کا

جنوں کی عظمتیں مجھ کو منیرؔ آغوش میں لیں گی
طواف اپنی نگاہیں کر رہی ہیں اس کی محفل کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse