محبت سے طریق دوستی سے چاہ سے مانگو
محبت سے طریق دوستی سے چاہ سے مانگو
مرے صاحب کسی سے دل جو مانگو راہ سے مانگو
گئے فرہاد و قیس ان کا نظیر اک میں جہاں میں ہوں
عزیزاں خیر باقی ماندگاں اللہ سے مانگو
خط اس کافر نے قتل عام کا فرماں نکالا ہے
مسلمانو پناہ اس آفت ناگاہ سے مانگو
اگر ہے عزم روم و زنگ کی تسخیر کا بارے
کمک تم انکھڑیوں اپنی کی نادر شاہ سے مانگو
نمود اے عاشقو گر معرکے میں عشق کے چاہو
تو مانگو طبل نالے سے علم دار آہ سے مانگو
نظر سب کچھ پڑے اٹھ جائے غفلت کا اگر پردہ
جہاں کی دید کی رخصت دل آگاہ سے مانگو
ملوں میں یار سے پھر آپ کے دھاڑی ہے اور صندل
دعائیں شیخ جی پیروں کی تم درگاہ سے مانگو
دماغ اس کا فلک پر ہے عبث خجلت زدہ ہو گے
میاں دل سنتے ہو بوسہ نہ تم اس ماہ سے مانگو
مآل کار اس کا خاک ہے جز خواری و ذلت
اماں اے دوستو دنیا میں حب جاہ سے مانگو
سوا اک مال و زر کے جان و دل ہے دین و ایماں ہے
تمہیں جو چاہئے اس اپنے دولت خواہ سے مانگو
لیے اور گم کئے لاکھوں ہی اس نے یہ نہیں ہوتا
محبؔ دل دے کے پھر اس شوخ بے پرواہ سے مانگو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |