مجھ کو دنیا کی تمنا ہے نہ دیں کا لالچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو دنیا کی تمنا ہے نہ دیں کا لالچ  (1914) 
by پروین ام مشتاق

مجھ کو دنیا کی تمنا ہے نہ دیں کا لالچ
ہائے لالچ ہے تو اک ماہ جبیں کا لالچ

عشق بازی پہ سنا مجھ کو ملامت نہ کرو
حیف ہے جس کو نہ ہو تم سے حسیں کا لالچ

حالت قلب سر بزم بتاؤں کیوں کر
پردۂ دل میں ہے اک پردہ نشیں کا لالچ

جب یہیں طیش میں گزرے تو وہاں کیا امید
نہ رہا اس لئے ہم کو تو کہیں کا لالچ

بوریا تخت سلیماں سے کہیں بہتر ہے
ہم غریبوں کو نہیں تاج و نگیں کا لالچ

نہ میں دنیا کا طلب گار نہ عقبیٰ کی ہوس
آسمانوں کی تمنا نہ زمیں کا لالچ

دل بھی دو جان بھی دو زر بھی دو اس کو پرویںؔ
بڑھ گیا سب سے مرے ماہ جبیں کا لالچ


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%D8%AC%DA%BE_%DA%A9%D9%88_%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%DB%8C_%D8%AA%D9%85%D9%86%D8%A7_%DB%81%DB%92_%D9%86%DB%81_%D8%AF%DB%8C%DA%BA_%DA%A9%D8%A7_%D9%84%D8%A7%D9%84%DA%86