مثال چرخ رہا آسماںؔ سر گرداں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مثال چرخ رہا آسماںؔ سر گرداں  (1905) 
by مرزا آسمان جاہ انجم

مثال چرخ رہا آسماںؔ سر گرداں
پر آج تک نہ کھلا یہ کہ جستجو کیا ہے

یہاں تو کام تمنا ہی میں تمام ہوا
مگر انہوں نے نہ پوچھا کہ آرزو کیا ہے

یہ بحث کثرت و وحدت کی ہم سے کیوں واعظ
ہماری آنکھوں سے تو دیکھ چار سو کیا ہے

کوئی تو چاہئے رخنہ امیدواری کو
برائے چاک جگر حاجت رفو کیا ہے

مثل جہاں میں ہے "مشتے نمونہ از خروار"
جو ہٹ دھرم نہیں تم ہو تو ہٹ کی خو کیا ہے

گواہ ہیں یہ تری بہکی بہکی باتوں کے
یہ جام کیا ہے یہ مے کیا ہے یہ سبو کیا ہے

تمہارے دانت نہیں ہیرے کی ہیں یہ کنیاں
تمہارے سامنے موتی کی آبرو کیا ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%D8%AB%D8%A7%D9%84_%DA%86%D8%B1%D8%AE_%D8%B1%DB%81%D8%A7_%D8%A2%D8%B3%D9%85%D8%A7%DA%BA%D8%94_%D8%B3%D8%B1_%DA%AF%D8%B1%D8%AF%D8%A7%DA%BA