مآل جور سمجھے اور نہ انجام وفا سمجھے
Appearance
مآل جور سمجھے اور نہ انجام وفا سمجھے
نہ ان کا مدعا جانا نہ اپنا مدعا سمجھے
تم اس مدہوش کو کیوں شاکیٔ جور و وفا سمجھے
جو مصروف دعا رہ کر نہ مقصود دعا سمجھے
زمانہ میں ہزاروں صورتیں ہیں موت آنے کی
ہمیں کیوں کوئی اس کا کشتۂ تیغ ادا سمجھے
وفا کا تذکرہ بھی جرم ہے کیا کیوں بگڑتے ہو
ذرا سوچو تو کیا میں نے کہا اور آپ کیا سمجھے
اگر تو دشت غربت میں مرا ہو ہم سفر ناصح
تو رہزن تو کجا ریگ رواں کو رہنما سمجھے
جہاں میں بے نیازی کی اسے شانیں دکھانا ہیں
وہ کیوں پابند فطرت ہو وہ کیوں اچھا برا سمجھے
کسی کی شوخیٔ برق نظر کا ہے یہ آئینہ
منیرؔ اس اضطراب دل کو میرے کوئی کیا سمجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |