لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا
by باقر آگاہ ویلوری

لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا
تو چشمہ زندگی کا اپنی لبریز بقا پایا

نہ ہوئے کیوں بصد جاں دل مرا مفتوں ترا جاناں
کہ ہر جلوے میں تیرے یک کرشمہ میں جدا پایا

دوبالا کیوں نہ ہو نشہ دل حیراں کی حیرت کا
جو تجھ کو سب میں اور تیرے میں سب کو برملا پایا

تری اک گردش مژگاں سے یوں بے تاب و طاقت ہوں
نہ کہہ سکتا ہوں کچھ گر کوئی پوچھے تو نے کیا پایا

نہ دنیا اس میں رہ پاوے نہ عقبیٰ اس کو پھیلاوے
دل آگاہؔ کے کوثر میں جن نے انزوا پایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse