لاکھ دیکھوں تجھے پھرتی نہیں نیت میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لاکھ دیکھوں تجھے پھرتی نہیں نیت میری  (1914) 
by مردان صفی

لاکھ دیکھوں تجھے پھرتی نہیں نیت میری
دل ہے قابو میں مرا اب نہ طبیعت میری

آ کے پہلو میں مرے بیٹھ میں ہو جاؤں نثار
ہے تمنا تو یہی ہے یہی حسرت میری

دم آخر تو مرے پاس بھلا آ بے درد
تیری فرقت میں کوئی دم میں ہے رخصت میری

قبر پر میری اگر فاتحہ پڑھنے کے لئے
وہ جو آ جائیں تو تھرا اٹھے تربت میری

تم کو دیکھا کروں ہر وقت سراپا ہوں فنا
کرتی رہ رہ کے تقاضا ہے یہ حالت میری

زندہ درگور ہوں لیکن مجھے زندہ نہ سمجھ
ایک مدت جو یہی رہ گئی حالت میری

کشتۂ ناز ہوں جن کا ہے انہیں کا کونین
ثروت جم سے اٹھے گی وہ ہے میت میری

بعد مردن بھی میں بیمار محبت ہی رہوں
تا قیامت نہ ہو یا رب کبھی صحت میری

ہیچ دنیا ہے زر و مال ہے سب ہیچ مگر
اک محبت تری مرداںؔ ہے یہ دولت میری


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%84%D8%A7%DA%A9%DA%BE_%D8%AF%DB%8C%DA%A9%DA%BE%D9%88%DA%BA_%D8%AA%D8%AC%DA%BE%DB%92_%D9%BE%DA%BE%D8%B1%D8%AA%DB%8C_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D9%86%DB%8C%D8%AA_%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C