لالہ رو تم غیر کے پالے پڑے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لالہ رو تم غیر کے پالے پڑے
by ولی اللہ محب

لالہ رو تم غیر کے پالے پڑے
دیکھنے کے ہیں ہمیں لالے پڑے

جب نظر سرمے کے دنبالے پڑے
دل کے پیچھے تیر اور بھالے پڑے

اس برس فرقت میں تیرے اشک کے
چشم سے بہتے ہیں پرنالے پڑے

ہم ہوائے وصل میں یاں تک پھرے
جو ہوس کے پاؤں میں چھالے پڑے

عارض اس کے پر نہیں زلف سیاہ
گنج پر سوتے ہیں دو کالے پڑے

آہ اور نالے کے گرداگرد دل
پھرتے ہیں راتوں کو رکھوالے پڑے

کیا نزاکت ہے کہ بوسہ لیتے ہی
ہونٹ پر اس گل کے تب خالے پڑے

آنکھیں اس خوں خار سے پھر جا لڑیں
زخم دل کے ہیں ابھی آلے پڑے

عشق کے ہاتھوں سے جوں فرہاد و قیس
کیا کہیں کس کس کے گھر گھالے پڑے

عاشق اس کی مست آنکھوں کے مدام
پھرتے ہیں بے ہوش متوالے پڑے

شیخ تم فی الحال در بزم سماع
بد اصولی سے ہو بے تالے پڑے

اپنے گھر میں شیخ اندھیری رات میں
ہاتھ جو آوے اسے جا لے پڑے

کھولے یہ شیشوں کے منہ ساقی نے آج
بزم میں ترتے ہیں کیا پیالے پڑے

اڑتے پھرتے ہیں زمیں پر شکل ابر
پرچہ پرچہ روئی کے گالے پڑے

در پر اس گل کے محبؔ تم سے ہزار
پھرتے ہیں دل بیچنے والے پڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse