فسانہء مبتلا/38

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

بات یہ ہے کہ حقیقت میں وہ آج شاموں شام تک کنچنی تھی۔ مگر میں اس کو ایک مدت سے جانتا ہوں۔ ہمیشہ یہ مجھ سے کہا کرتی کہ مجھ کو اس پیشہ سے سخت نفرت ہے۔ اگر کہیں میری روٹی کا ٹھکانہ لگ جائے تو میں تائب ہو جاؤں۔ جب تم نے نوکر رکھنے کا وعدہ کیا تو میں نے اس کو زبان دی اور وہ ارادے کی ایسی پکی اور سچی تھی کہ فوراً میرے ساتھ ہو لی اور پھر کس طرح یہ کہ گہنا اور پاتا اور کپڑا اور لتا اور سازوسامان یعنی بھرا بھرا یا گھر سب کو لات مار کر جس طرح بیٹھی تھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

میں نے بے شک جھک مارا اور میرا بال بال خدا کا اور تمہارا گناہگار ہے۔ مگر جس دن سے چچا باوا تشریف لائے، تم میری کوئی ایک بات بتاؤ اور یوں اگر تمہارے مذہب میں توبہ کوئی چیز نہیں اور ناحق بدگمان رہو تو تمہاری خوشی۔

بھلا تم نے چند روز تو اس بے چاری غریب کو رکھ کر دیکھا ہوتا۔ جو شخص آٹھوں پہر آنکھوں کے سامنے رہے۔ اس کا حال آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ضرور کھلے گا۔

نوکر سریش نہیں ہے کہ چمٹ جائے مرضی ہوئی رکھا۔ مرضی نہ ہوئی نہ رکھا۔ مگر چونکہ میرا قدم درمیان ہے۔ میں تم سے بات کہوں صاف۔ یوں بے خطا بے قصور تو میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ تم ہی بتاؤ کہ اب وہ جائے تو کہاں جائے۔ غیرت بیگم ابھی کچھ ہاں نا کرتے نہیں پائی تھی کہ مبتلا نے کہا کہ ماما جا باہر ہریالی ایک عورت کھڑی ہے اس کو بلا لا اور کام کاج میں اس سے مدد لیا کر۔

غرض وہ نکالی جا کر پھر آموجود ہوئی۔ رات گئی تھی زیادہ لوگ کھا پی کر اپنی اپنی جگہ سوسلا رہے۔ ہریالی یعنی بیگم بھی تخت پر بے تکیے بے بچھو نے ماماؤں میں سوئی، صبح کو جو اٹھے تو پھر لوگوں نے ہریالی کو گھورنا شروع کیا۔ مگر اب اس کا سنگار ہو گیا تھا باسی اور تمام شب کی بد خوابی اور زحمت کی تکان سے اس کا جوبن بھی نڈھال ہو رہا تھا۔ لوگوں نے کچھ بہت اس کا پیچھا نہیں کیا۔

اس میں شک نہیں کہ گھر میں ایک منتظم عورت کی سخت ضرورت تھی اور یہی ضرورت ہریالی کے پاؤں جم جانے کا سبب ہوئی۔ ہریالی نے جو صبح سویرے اٹھ کر دیکھا تو تمام اسباب مولی گاجر کی طرح سارے گھر میں پھیلا پڑا ہے۔ اس نے خود کھڑے ہو کر جہاں جہاں فرش تھا اٹھوا کر دالانوں میں صحنوں میں، دروں میں، باورچی خانے میں۔ یہاں تک کہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دلوائی۔

ٹوکروں نہیں چھکڑوں کوڑا نکالا اور بہت سی گری پڑی چیزیں ملیں، جن کو ڈھونڈ ڈھونڈ صبر کر کے بیٹھ رہے تھے اور سمجھ لیا تھا کہ کھوئی گئیں۔ مٹی کی تہیں جمتے جمتے دریوں کا یہ حال ہو گیا تھا کہ اصل رنگت پہچان نہ پڑتی تھی۔ جھڑوایا تو منوں گرد دروازوں میں جو چلمنیں اور پردے بندھے تھے، الٹے سیدھے کا تو کس کو امتیاز تھا، کوئی دھر تک بندھا ہے تو کوئی آدھے در میں پڑا لٹک رہا ہے اور کسی کا لپیٹ ایک طرف کو جھک کر نکل پڑا ہے تو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کو برابر کر دیں۔

بلکہ کئی پردوں میں سے تو فاختاؤں اور جنگلی کبوتروں اور گلہریوں کے گھونسلے نکلے۔ گھر میں تخت تو بہتیرے ہیں مگر بیٹھنے کے دالانوں میں زمین پر بوریے بچھے ہیں۔ بوریوں پر دریاں، دریوں پر چاندیوں پر لیے پھرتی ہیں اور چاندنیوں کا مارے دھبوں اور چکتوں کے یہ حال ہو رہا ہے کہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ صبح سے کھڑے کھڑے ہریالی کو دوپہر ہو گئی۔

تب کہیں جا کر اتنا کام ہوا کہ گھر میں جھاڑو دی گئی۔ دالانوں میں اس حساب سے تخت بچھوائے کہ بیچ میں فرش اور اِدھر اُدھر ماماؤں اور لونڈیوں کے چلنے پھرنے کی جگہ اب چاندنیوں اور تکیوں کے غلاف اور پلنگوں کی بھی چادروں کی ڈھنڈیا پڑی۔ قاعدہ ہے کہ جب چیزوں کا انتظام نہیں ہوتا تو یہی شناخت ہے کہ چیزوں کی حفاظت بھی نہیں۔ اتنا بڑا گھر اور اس وقت دھوئی ہوئی تین چاندنیاں درکار تھیں۔

وہ بھی نہیں ملتی تھیں۔ غیرت بیگم نے بہتیرے پتے بتائے، ارے کم بختو ابھی عشرے ہفتے کا ذکر ہے۔ دھوبن چاندھنیوں کا گٹھڑ لائی۔ وہ سب ڈھیر کا ڈھیر کیا ہو گیا۔ لٹھے کی وہ کوری چاندنی جو بیچ کے دالان میں بچھی تھی اور پرسوں ترسوں اس پر سالن کی دیگچی مبارک قدم کے ہاتھ سے الٹ پڑی تھی اور میں نے صاف کرنے کے لیے اٹھوا دی تھی، کہاں ہے۔ جتنی کھڑی تھیں۔

ایک ایک کا منہ دیکھتی تھیں اور ایک ایک پر ٹالتی تھیں۔

آخر بڑی مشکل سے دو چاندنیاں اناج کی کوٹھڑی کی مچان پر پڑی ملیں، جن میں چوہوں نے کاٹ کاٹ کر بغار ڈال دیئے تھے اور ایک میں کسی ماما نے سوکھے ٹکڑے باندھ کر کھونٹی پر لٹکا رکھے تھے۔ اس جستجو میں معلوم ہوا کہ کئی چاندنیاں باہر سائیس کے پاس ہیں وہ اوڑھ کر سوتا ہے۔ دو یا تین چاندنیاں کسی کو مانگے دی تھیں وہ واپس نہیں آئیں۔

میلی چاندنیوں کا ایک ڈھیر غسل خانے میں پڑا ملا۔ غرض اس وقت تو ہریالی نے کسی طرح گونتھ گونتھ کر فرش کو پورا کیا۔ پلنگ سب کے سب جھولا ہو رہے تھے۔ ان کو کسوا کر اجلی چادریں بچھوا دیں۔ تکیوں کے غلاف بدلے۔ اجلا دستر خوان نکلوا دیا۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ میاں مبتلا کھانے کے لیے آرہے ہیں۔ ہریالی یہ سن کر سامنے سے ٹل گئی۔ باورچی خانے کے آڑ میں ہو گئی۔

مبتلا نے آکر دیکھا تو اتنی ہی دیر میں گھر کی صورت بدلی ہوئی تھی، سمجھا کہ یہ سب ہریالی کے تصرفات ہیں۔ دالان میں بیٹھ کر کھانا مانگا تو باورچی خانے سے دو لونڈیاں سالن کی دو دو رکابیاں لے کر چلیں۔ پیچھے سے ایک ماما ہاتھ میں روٹیوں کی تھئی اٹھا کر دوڑی۔ ہریالی سے نہ رہا گیا۔ عین وقت پر کیا ہو سکتا تھا مگر خیر ان کو روک کر جلدی جلدی تھالی جوڑ پانی پینے کی صراحی، سینی، سلفچی، خاصدان، اگالدان سب چیزیں منجوائیں۔

سینی کے بیچ میں روٹی گردا گرد سالن کی رکابیاں جما اوپر سے خوان پوش ڈھک ایک لونڈی کے سر پر رکھوا سمجھا دیا کہ دیکھو خبردار آگے دیکھ کر آہستہ آہستہ چلو کہیں ٹھوکر نہ لگے اور دوسری لونڈی کو سلفچی، آفتابہ، اُجلا دستر خوان دے کر اس کے ساتھ کیا کہ پہلے تخت کے نیچے کھڑی رہ کر میاں بی بی دونوں کے ہاتھ دھلائیو۔ جب ہاتھ دھو چکیں سلفچی آفتابہ الگ رکھ کر دونوں کے بیچ میں اجلا دسترخوان بچھائیو اور سینی احتیاط کے ساتھ اتروا کر روٹیاں بیچ میں رکھیو دو قسم کا سالن ہے، دونوں کے سامنے دونوں قسم کا رکھ دیجیوں۔

تھالی جوڑ اور پانی پینے کی صراحی پیچھے سے بھجواتی ہوں۔ جب مانگیں تو خبردار آدھے کٹورے سے زیادہ بھر کر نہ دینا اور پانی جو پلانا تو جھک کر کٹورا آگے کر دینا کہ خود اپنی آنکھ سے دیکھ لیں اور تھالی منہ کے نیچے رکھنا کہ پانی کپڑوں پر گرنے نہ پائے۔ گھر میں چٹنی، اچار، مربہ بھی کچھ تھا مگر دستر خوان پر رکھنے کا دستور نہ تھا۔ جس کسی کو بھی کسی چیز کا خیال آگیا اور منہ پھوڑ کر مانگی تو مرتبان یا اچار اس کے پاس لے جا کر روٹی پر ایک پھانک رکھ دی۔

ہریالی نے چار قسم کی چار پیالیاں ایک رکابی میں لگا ابھی کھانا شروع نہیں کرنے پائے تھے کہ پہنچا دیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کا گرم پانی کا آفتابہ اور ایک طشتری میں بلیس، کھانے کو خاصدان میں بھیگی ہوئی صافی سے لپٹی ہوئی گلوریاں پہلے سے تخت پر رکھوا دیں۔ یہ تو ہریالی کے پہلے دن کے بلکہ پورا دن بھی نہیں دوپہر کے اور جلدی کے کام تھے۔

مہینے بھر کی محنت میں اس نے کپڑے کا، کھانے کا سامان، خانہ داری کا اندر باہر دونوں جگہ کے نوکروں کا بازار کے سودا سلف کا سب انتظام کر دیا۔ سلیقہ بھی عجیب چیز ہے۔ اندر باہر عورت مرد جتنے نوکر تھے۔ آپ سے آپ سب ہریالی کا ادب کرنے لگے۔ معصوم ایسا ہلا کہ دن رات میں ایک دم کے لیے گود سے نہیں اترتا تھا۔ بتول کی کیا بساط تھی، کیسی ہی بھڑکتی ہوئی آواز سنی اور چپکی ہوئی۔

غیرت بیگم کے دل میں اس کی طرف سے شک تو تھا مگر ہر چندہ ٹوہ لگائی کہ کوئی بات نہ پکڑ پائی۔ مبتلا کے گھر میں آنے کے وقت مقرر تھے، ہریالی ان وقتوں میں کسی نہ کسی بہانے سے ٹل جاتی تھی اور اگر احیاناً بضرورت سامنے چلی پھری بھی تو ایک دوسرے سے ایسے بے رخ بن جاتے تھے کہ تعلق کیسا۔ گویا جان پہچان تک بھی نہیں۔ مگر خدا جانے دونوں کو کیا ڈھب یاد تھا کہ اتفاقی اچٹتی ہوئی ایک نگاہ ان کے حق میں خلوت کا حکم رکھتی تھی۔

نہیں معلوم مبتلا آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا کہہ دیا کرتا تھا کہ ہریالی برابر سرگرمی اور دل سوزی کے ساتھ گھر کے انتظام میں مصروف رہتی تھی۔ سچ ہے غیرت بیگم کے ساتھ مبتلا کے دل کے نہ ملنے کا بڑا سبب تھا۔ مبتلا کی حسن پرستی اور آوارگی۔ مگر اتنا قصور تو غیرت بیگم کا بھی تھا کہ اس نے مبتلا کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ذرا بھی کوشش نہیں کی۔

وہ سمجھی جیسا کہ گھر کی بیبیاں اکثر سمجھا کرتی ہیں کہ جب ماں باپ نے میاں کے ہاتھ میں ہاتھ پکڑا دیا تو بس مجھے اپنی طرف سے کچھ کرنا نہیں۔ اب میاں کا کام ہے کہ کما کر لائے اور مجھے کھلائے پہنائے۔ میری خاطر داری و مدارت کرے۔

لیکن اس کو اتنی بات اور سمجھنی چاہیے تھی کہ کھلانا پہنانا خاطر داری و مدارت کرنا، سب چیزیں منحصر ہیں رغبت پر۔

رغبت کرنا میاں کا کام اور دلانا بی بی کا۔ رہی یہ بات کہ بی بی کیوں کر میاں کو رغبت دلائے، اس کے لیے کوئی ایسا قاعدہ نہیں کہ ہر جگہ چل سکے، کیونکہ ہر ایک کا مزاج مختلف اور ہر شخص کی رغبت جدا، لیکن بی بی اگر چاہے تو اس کو اپنے میاں کی رغبت کا معلوم کر لینا کیا مشکل ہے مثلاً غیرت بیگم اتنا تو دیکھتی تھی کہ مبتلا کیسی صفائی اور کس شان کے ساتھ رہتا ہے۔

وہ ہر چیز میں حسن چاہتا تھا۔ خیر حسن صورت مبتلا کی پسند کے لائق ہو یہ تو اختیاری بات نہ تھی۔ مگر جس قدر اختیاری تھی غیرت بیگم نے اتنی ہی کر کے دکھائی ہوتی، گھر کی صفائی ستھرائی، سازوسامان کی درستی، انتظام کی خوبی یہ چیزیں بھی داخل حسن ہیں اور طبیعت میں سلیقہ ہو تو ہاتھ پاؤں کے اور غیرت بیگم تو زبان کے بلانے سے سب کچھ ہو سکتا تھا۔

مگر اس نے ان چیزوں کی طرف کبھی بھول کر بھی توجہ نہ کی۔ مردانے مکان میں میاں کی بیٹھک تھی اسی کو دیکھ کر متنبہ ہوئی ہوتی۔ اس کا اپنا کیا حال تھا کہ میاں کو جو شروع شروع میں اپنی طرف سے بے رخ پایا تو تین تین چار دن سر میں کنگھی ندارد، لونڈیوں کے تقاضے سے دسویں پندرہویں سر دھویا ہے تو بالوں میں تیل کی خبر نہیں۔ پھولے پھولے، روکھے بال دور سے ایسا معلوم ہوتا کہ کڑک ناتھ کڑک مرغی بیٹھی ہے۔

آنکھوں میں سرمہ نہیں ہاتھ پاؤں میں مہندی نہیں۔ پھول نہیں، عطر نہیں گوٹا نہیں کناری نہیں، غرض عورتوں کے سنگھار کی کوئی چیز نہیں، مبتلا پہلے استکراہ تھا، غیرت بیگم کی بے تدبیریوں نے استکراہ کو نفرت اور نفرت کو ضد اور ضد کو چڑ بنا دیا۔ صورت شکل میں ہریالی کچھ غیرت بیگم سے زیادہ اچھی نہ تھی مگر چھٹانک بھر حسن ہوتا ہے تو غور و پرداخت سے دیکھنے والوں کی نظر میں سیر بھر جچنے لگتا ہے۔

سو غورو پرداخت کے عوض غیرت بیگم تو یہ چاہتی تھی کہ ابٹنے کی جگہ تھوڑی سی کیچڑ ملے تو اٹھا کر منہ کو مل لوں۔ میاں بی بی میں جب اختلاف مزاج اس درجے کا ہو تو ان میں صحبت بر آر ہونے کی کیا امید۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھاتی پر مونگ دلنے کے لیے آخر ایک سوکن تو آ موجود ہوئی، ہریالی کا انتظام دیکھ دیکھ کر غیرت بیگم کا پھوہڑ پن مبتلا کے دل میں اور بھی بیٹھتا چلا جاتا تھا۔