فسانہء مبتلا/37

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

غیرت بیگم: گھر میں کوئی بڑا بوڑھا ہو تو ان باتوں کا دھیان رکھے۔ بچے ذرا ماندے پڑتے ہیں تو میرے ہوش و ہواس ٹھکانے نہیں رہتے۔ لو اب مغرب کی اذان تو ہو چکی ہو گی۔ یا ہو رہی ہو گی۔ لڑکی کے جھگڑے میں کھانے کا بھی تو کچھ بندوبست نہیں ہوا۔ گوشت کا تو اب وقت نہیں رہا۔ کہو تو خاگینہ پکوا لوں۔

مبتلا: جو تمہارے جی میں آئے پکواؤ۔ مگر خدا کے لیے کوئی سلیقہ مند عورت ضرور رکھو۔

غیرت بیگم: ماماؤں کا تو ہمارے شہر میں ایسا توڑا ہے کہ دوا کے لیے بھی میسر نہیں۔ جو عورتیں اس کام کی ہیں مزے میں گھر بیٹھے ہی گوٹے کناریاں بنتی ہیں یا سلائی کا سیتی ہیں۔ نوکری پرائی تابعداری کرے ان کی بلا، اور جن سے یہ کام ہو نہیں سکتا انہوں نے سر پر ڈالا برقع اور جدھر کو منہ اٹھا چل کھڑی ہوئیں۔

پہر چھے گھڑی بھیک مانگی لدی پھندی گھر لوٹ آئیں!

مبتلا: لیکن میرے نزدیک تمہیں ماما کی نہیں بلکہ ایسی عورت کی ضرورت ہے جو بال بچوں کی خبرگیری کرے۔

وقت پر ان کا ہاتھ منہ دھلائے۔ کھانا کھلائے۔ کپڑے پہنائے۔ گھر کی چیز بست دھرے اٹھائے۔ غرض داروغہ کی طرح گھر کے سارے انتظام کی نگرانی کر کے تم کو آسائش پہنچائے۔

غیرت بیگم: تم ہی کوئی اس طرح کی عورت ڈھونڈھ کر نہیں لا دیتے۔

مبتلا: لا دوں تو رکھو گی اور کیا تنخواہ دو گی!

غیرت بیگم: ضرور رکھوں گی اور تنخواہ پانچ روپے اور کھانا کپڑا۔

مبتلا: خیراتنی ہی تنخواہ دینا مگر خاطر داری رکھنا۔ لکھنئو کی ایک عورت ہے خدا جانے کس تباہی میں آکر یہاں چلی آئی ہے۔ اگر پھٹا پرانا ایک جوڑا کپڑا دو تو میں پہنا کر ابھی اس کو لے آؤں۔ غیرت بیگم نے جلدی سے گٹھڑی کھول کر ایک جوڑا کپڑا نکال میاں کے حوالے کیا۔

مبتلا کپڑے لئے بیگم کے پاس پہنچا اور اس کو سمجھا دیا کہ اس طور پر میں نے تمہارے گھر لے چلنے کی راہ نکالی ہے۔

مجھے اپنی بی بی کا حال معلوم ہے۔ وہ یہی نہیں کہ صورت کی اچھی نہیں بلکہ اس میں عقل کی بھی کوتاہی ہے صورت تو خیر تم چل کر دیکھ لو گی۔ مگر عقل کی کوتاہی اس سے ظاہر ہے کہ اس نے عورت کے لانے کی فرمائش کی بھی تو مجھ سے۔ پس تم کو چند روز البتہ بے عزتی کا تحمل کرنا پڑے گا۔ اس کا مجھے کامل یقین ہے کہ تم گھر والی ہو گی اور وہ رہے گی تو تمہاری خدمت کرے گی یا اپنے میکے چلی جائے گی۔

غرض غیرت بیگم کا اتارن پہن کر بیگم مبتلا کے گھر جا داخل ہوئی۔ بھلے مانسوں کی بہو بیٹیوں کی طرح دبی جھکی، سکڑی، سمٹی، مبتلا کو تو اتنی جرأت نہ ہو سکی کہ خود لے جا کر غیرت بیگم سے ملا دیتا۔ دروازے کے اندر کر کے اتنا پکار دیا کہ لو صاحب! یہ داروغہ آتی ہے۔ اور آپ مردانے میں جا بیٹھا۔ بیگم نے اپنے تئیں سنبھالا بہت مگر وہ جس قدر اپنے چھپاتی تھی، اسی قدر اس کا پردہ فاش ہوتا جاتا تھا۔

آئی تو نوکر کے نام سے اور عورتوں میں بیٹھی دلہنوں کی طرح۔ گھونگھٹ نکال کر۔ رات کا تھا وقت: غیرت بیگم نے کہا:

ذرا روشنی قریب لاؤ تو ان کی صورت اچھی طرح نظرآئے۔ جوں غیرت بیگم نے زبردستی اس کا منہ کھولا۔ دیکھتی کیا ہے کہ ایک عورت ہے جو ان، ماتھے پر افشاں چنی ہوئی۔ پٹیاں جمی ہوئی۔ الٹے بل کی چوٹی اور اس میں چنپا کا موباف۔ کانوں میں چنبیلی کی کلیاں۔

آنکھوں میں دھواں دھار سرمہ۔ مسی کی دھڑی اور دھڑی پر لاکھا۔ ہاتھ پاؤں میں مہندی دور سے خوشبو بڑی مہک رہی ہے۔ غیرت بیگم دیکھنے کے ساتھ اس طرح ڈر کر پیچھے کو ہٹی کہ جیسے کوئی بچہ بیچا سے بھاگتا ہے اور لگی کہنے: اوئی بیوی۔ یہ ماما کس قسم کی۔ یہ تو کوئی نامراد کنچنی ہے۔ پھر تو ہمسائے تک کی عورتیں گھر میں آبھریں اور سب نے مل کر بیگم کا ایسا بُرا حال کیا کہ کوئی دوپٹہ اتارے لیے جاتا ہے کوئی پیچھے سے چوٹی گھسیٹ رہا ہے۔

مگر کسی رحم دل بی بی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر ڈیوڑھی میں لے جا کر چھوڑا دیا اور کہا کہ بیوی نبوجدھر سے آئی ہے ادھر ہی کو چلی جا۔ وہ تو گھر والی دل کی بڑی نیک ہے۔ کوئی اور دوسری ہوتی تو بے ناک چوٹی کاٹے نہ رہتی۔ مبتلا ڈیورھی کے بازو سے لگا یہ سب تماشا دیکھ رہا تھا۔ کچھ ہنسی کچھ غصہ۔ بیگم کو دیکھتے ہی بولا:

واہ اچھی اپنی گت کرائی۔

باوجود یکہ میں نے تم سے کہہ دیا تھا کہ میں تم کو نوکری کے حیلے سے لیے چلتا ہوں۔ پھر تم کو ایسا بن سنور کر آنا اور اتنا لمبا چوڑا سنگار کرنا کیا ضرور تھا۔ سیدھے سبھا چلی آئی ہوتیں، نہ کسی کو شبہ ہوتا اور نہ چراغ لے لے کر کوئی تمہارا منہ دیکھتا۔ خیر اب ذرا کی ذرا، یہاں ٹھہرو پھر میں تمہاری بات جماتا ہوں، مگر دیکھو خبردار کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے لوگوں کو میرے تمہارے لگاؤ کا شبہ ہو۔

مبتلا نے گھر کے اندر پاؤں رکھتے ہی پوچھا کہ لڑکی کا کیا حال ہے۔

انا بولی: اب تو اللہ کا فضل ہے۔ دوبار عرق پلایا اس قدر پسینہ آیا کہ شام سے تین کرتے بدل چکی ہوں۔

مبتلا: بس انشاء للہ اب بخار گیا۔ بارے اب الحمدللہ بچ گئیں (پھر بیوی کی طرف مخاطب ہو کر) لاؤ صاحب کھانا تیار ہو تو منگواؤ۔ دستر خوان بچھا عادت کے مطابق میاں بی بی کھانا کھانے بیٹھے تو مبتلا نے پوچھا: کیوں صاحب وہ عورت آئی تھی۔

غیرت بیگم: واہ چوری اور سرزوری۔ آج کو بڑے ماموں جان زندہ ہوتے تو الٹے استرے سے مردار کا سر منڈوا کر بھی بس نہ کرتے اور تم کو تو اپنی لاج کا لحاظ پاس آج کیا برسوں سے نہیں۔ بڑے ماموں جان کی زندگی تک چوری چھپے کرتے تھے۔ وہ مرے تو تم کھل کھیلے۔ مردانہ مکان تو مدتوں سے کنچنیوں کا چکلہ ہو رہا ہے۔ ایک زنانہ مکان بچا تھا۔ سو میں خوب جانتی ہوں کہ تم اس کی تاک میں لگے ہو۔

مگر جب تک میں جیتی بیٹھی ہوں دیکھوں تو کون رستم کی جنی میری ڈیوڑھی کے اندر پاؤں رکھتی ہے۔ اپنا اس کا خون ایک کر دوں تو سہی۔

مبتلا: بے وجہ بے سبب تم اس قدر گرم کیوں ہوتی ہو۔ بھلا اتنا سمجھو اگر وہ کنچنی ہوتی اور فرض کرو کہ اس کو بلانا منظور ہوتا تو مردانہ ہوتے ساتے مجھ کو اسے گھر میں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ خدا عقل دے تو سمجھنے کے لیے ایک موٹی بات یہ ہے کہ کنچنی ہوتی تو تمہارے مانگے کے کپڑے پہن کر کیوں آتی۔

غیرت بیگم: کپڑا اور گہنا تو بے شک اس کے پاس نہ تھا مگر سر سے پاؤں تک چوتھی کی دلہن معلوم ہوتی تھی۔

مبتلا: تم کو چاہیے تھا کہ مجھ کو بلا کر پوچھتیں۔ اگر میں تمہاری تشفی نہ کر سکتا۔ تب بھی اس بے چاری کا کیا قصور تھا۔ مجھ پر جتنا چاہتیں خفا ہو لیتیں۔