فسانہء مبتلا/23

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

اس لیے انسان کی تعلیم و تربیت کا قاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز اس کی عمر کا ایک مناسب وقت دیکھ کر سکھاتے ہیں۔ مثلاً غیر ملک کی بولی ضرور ہے کہ بچپن میں سکھائی جائے ورنہ بڑے ہو کر زبان مشکل سے ٹوٹتی ہے۔ چھوٹے بچے کو اگر منطق کے پیچیدہ مباحث سمجھانا چاہو تو سعی لاحاصل ہے۔ اسی طرح دین کی تعلیم کے لیے بھی ایک وقت مناسب ہونا چاہیے اور وہ نہیں ہو مگر سن طفولیت۔

کیونکہ آدمی کی عمر جس قدر بڑی ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدر فطرت سے دور اور اسی قدر اس کا دل لوث دنیا سے آلودہ اور زنگ اغراض سے تیرہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر شاید ایک وقت ایسا آئے کہ اس کے دل میں صبغت اللہ یعنی دین کا رنگ اٹھانے کی قابلیت باقی نہ رہے۔ اسی حالت کی نسبت قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اور کچھ بات نہیں ان کے دلوں پر ان کی بد کرداریاں جم گئی ہیں۔

دنیا میں اور بھی ہزاروں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ جن کو دین کی طرف مطلق توجہ نہیں۔ مگر بے توجہی دوطور کی ہے۔ ایک وہ جس کا سبب کاہلی اور غفلت اور مساہلت ہو دوسری وہ جو دین کے استخفاف سے پیدا ہو یہی بے توجہی ہے جو نہایت خطرناک اور نہایت مذموم ہے اور یہی بے توجہی ہے جس کو مدارس کی تعلیم پھیلائی چلی جا رہی ہے لیکن دین و مذہب لوگوں کی قدر دانی اور تسلیم کا محتاج نہیں ہے۔

ہمالیہ پہاڑ اپنی جگہ سے سرک جائے۔ گنگاپورپ کو بہتے بہتے پچھم کو بہنے لگے مگر خدا کی باتیں نہ کبھی ٹلتی ہیں اور نہ کبھی کسی کے ٹالے ٹلیں گی۔ دین تم سے چاہتا کیا ہے۔ صرف اتنی بات کہ خدا نے تم کو آدمی بنایا ہے۔ آدمی بن کر رہو تم کو آنکھیں دی ہیں اور دیکھتے ہو کان دیئے ہیں اور سنتے ہو زبان دی ہے اور بولتے ہو غرض ہر قوت سے وہ کام لیتے ہو جو اس کے کرنے کا ہے۔

قوتوں میں سب سے قوی اور سب سے عمدہ عقل ہے۔

اس نے تمہارا ایسا کیا قصور کیا ہے کہ اس کے کرنے کا کام اس سے نہیں لیتے۔ روئے زمین پر خدا کی جتنی مخلوق ہے سب میں اعلیٰ اور افضل اور اشرف انسان ہے اور اس کی برتری اس سے ظاہر ہے کہ دوسری مخلوقات پر حکمرانی اور مالکانہ تصرف کرتا ہے، دیکھو انسان کی بنائی ہوئی عمارتیں اس کے بسائے ہوئے شہر اس کے لگائے ہوئے باغ، نہریں، سڑکیں، پل، ریل، تار، دخانی، بادبانی، جہاز، انواع و اقسام کی کلیں اور زندگی کے سازوسامان مگر یہ برتری جو انسان کو استحقاقاً حاصل ہے، کیوں ہے، اس کی جسمانی قوتیں تو حیوانات کی قوتوں سے بہت ضعیف ہیں۔

مثلاً اس کی نظر سے گدھ کی نظر بہت تیز ہے۔ اس کے شامے سے شکاری کتوں کا شامہ کہیں زیادہ قوتی ہے۔ وہ اگر ذائقے سے چیزوں کا صرف مزا پہچانتا ہے تو بعض جانور مزے کے سوا خاصیت طبی کی شناخت بھی کر لیتے ہیں۔ توانائی کے لحاظ سے تو ہاتھی اور شیر وغیرہ کے سامنے وہ ایک مور ضعیف سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ پھر انسان کی بڑائی کس چیز میں ہے، عقل میں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ عقل کا کام کیا ہے۔

یہ سمجھنا کہ عقل ہم کو صرف اسی واسطے دی گئی ہے کہ کھانا پینا کپڑا مکان سازو سامان بہم پہنچانے میں مدد کرے عقل کو ذلیل اور بے قدر کرنا ہے۔ یہ تو عقل کے نہایت متبذل کام ہیں جانور جن کے جثّے ہمارے جثوں سے بہت بہت بڑے ان کی بھوک پیاس ہماری بھوک پیاس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ہماری جتنی عقل نہیں رکھتے اور ہم سے زیادہ آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔

ساڑھ ستر برس کی زندگی اور معدودے چند ضرورتوں کے لیے ایسی عقل جو ماضی اور مستقبل کے قلابے ملائے اور زمین سے آسمان تک یوں پھیلائے کسی بڑے اور عمدہ کام کے لیے دی گئی ہے اور وہ یہ نہیں ہے۔ مگر یہ کہ مخلوق سے خالق اور فانی سے باقی اور دنیا سے آخرت کو پہچان کر اس گھر کے لیے تیاری کریں، جہاں روح کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، لیکن فرض کرو کہ ہم ان خیالات کو اپنے ذہن میں نہ آنے دیں اور آنکھیں بند کر لیں۔

دنیا و مافیہا سے جس کا ایک ایک ذرہ ہستی صانع اور ایک ایک واقعہ وجودِ سبب پر دلالت کر رہا ہے۔ تو اس سے واقعات کا بطلان تو نہیں ہو سکتا۔ خدا ہے اور ہمیشہ کو رہے گا۔ ہم اس کے بندے ہیں اور کسی طرح اس کے فرمان سے باہر نہیں ہو سکتے۔ ہم کو مرنا ہے اور جو کچھ دنیا میں کیا ہے اس کی جواب دہی کرنی ہے عمل اچھے ہیں تو تسلی ہے اور امن ہے عافیت ہے اور سکون ہے اور قرار ہے یعنی یہ کہ بیڑا پار ہے۔

بُرے ہیں تو حسرت ہے اور افسوس ہے اور ندامت ہے اور پھٹکار ہے اور دھتکار ہے، یعنی یہ کہ دُکھ کی مار ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اصل میں تو ہوتی ہے غفلت اور اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ اختلاف مذہب ہے، جو بے توجہی کا باعث ہو جاتا ہے۔ آدمی دیکھتا ہے کہ دنیا میں سینکڑوں ہزاروں مذہب ہیں ہر ایک صرف اپنے آپ کو برسرحق سمجھتا ہے۔ باقی سب کو گمراہ و کافر اور مردود اور ملعون اور جہنمی تو یہ دیکھ کر خواہ مخواہ اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ پہلے ان ہزاروں مذاہب کے معتقدات سے واقفیت حاصل کروں پھر ان کے سوال و جواب سنوں پھر ان میں محاکمہ کروں۔

اس کے لیے میں کیا میری تو دس نسلوں کی عمریں بھی کفایت نہیں کر سکتیں۔ اس سے بہتر ہے کہ مذہب کی پہیلی کو جس کا اَتا پَتا کچھ نہیں سوچو ہی مت لیکن یہ بھی ایک وسوسہ شیطانی ہے اور انسان کے لامذہب ہونے کے لیے حجت نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں جتنے مذہب ہیں، جہاں تک مذہب کو دنیا سے تعلق ہے۔ سب کا مقصود اصلی ہے آدمی کی اصلاح اور اختلاف اگر ہے تو ملکوں کی آب و ہوا لوگوں کی طبائع اور عادات اور ضرورتوں کے اختلاف کی وجہ سے اورفروغ میں ہے۔

نہ اصول میں جزئیات میں ہے۔ نہ کلیات میں۔ پس تم جیسے نوجوان آدمیوں کے لیے اس سے بہتر اصلاح کی بات نہیں کی جس شان میں ہے اسی شان میں رہ کر پابندی مذہب کو نہ چھوڑے۔ اس شے سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ نیکی کا خیال دل میں راسخ ہو جائے گا۔ خدا سے لگاؤ پیدا ہو گا اور حق کی تلاش میں اس کو سزا ملے گی۔ آدمی اگر اتنا کرے اور اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہے تو ضرور خدا کی رحمت اس کی دست گیری کرے گی۔

لوگ مذہب کی طرف سے جو اس قدر غافل اور گرے بن رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خدا نے اپنے بندوں کی آزمائش کیلئے دنیا کا انتظام ایسے طور پر رکھا ہے کہ دنیاوی حالات کے اعتبار سے نیک و بد اور پابند مذہب اور لامذہبی اور مومن و کافر اور ملحد و مشرک کسی کا کچھ امتیاز نہیں خداوند تعالیٰ کی عام رحمتوں سے سب کے سب بلا تخصیص یکساں طور پر متمتع ہوتے ہیں۔

وقت پر پانی سب کے واسطے برستا ہے۔ ہوا کا ذخیرہ سب کے لیے موجود ہے۔ رزق ہر ایک کی خاطر مہیا ہے۔ صحت و مرض تمول و افلاس تو الدو تناسل حیات و ممات غرض زندگانی کی بھلی بری تمام کیفیتیں جیسی مسلمانوں میں، ویسی عیسائیوں میں، ویسی یہود میں، کوئی قوم بلکہ کوئی گروہ بلکہ کوئی فرقہ بلکہ کوئی متنفس اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مذہب کی وجہ سے مجھ کو دنیا میں یہ خصوصیت حاصل ہے اور کہیں ایسی ایک ادنیٰ سی خصوصیت بھی پائی جائے تو آپ جانیے تو تمام روئے زمین سے اختلاف مذاہب کے معدوم کر دینے کو کافی ہے۔