فسانہء مبتلا/22
پس مدرسوں کی تعلیم کا نتیجہ کیا ہے کہ نوجوان لڑکے فارغ التحصیل فضیلت کے خطاب اور لیاقت کی سندیں لے کر مدرسوں سے نکلتے ہیں۔ ان کو تمام ملکوں کی نئی و پرانی تاریخیں خوب یاد ہوتی ہیں، جغرافیے میں شاید ان کی معلومات اس درجہ کی ہوں کہ سمندر کی مچھلی ہیں یا پہاڑی کوّے یا افریقہ کے ریچھ یا آسٹریلیا کے لنگور یا امریکہ کے بن مانس یا تبت کے دنبے یا تاتار کے مینڈھے یا عرب کے بدو یا یورپ کے فرنگی یا ہندوستان کے بھیل سب سے آشنا ہوں۔
وہ انگریزی شاید ایسی عمدہ لکھ سکتے ہوں گے کہ گویا ان کی مادری زبان ہے۔ ریاضی میں وہ شاید وقت کے بطلیموس ہوں، علم ہیئت میں وہ اپنے زمانہ کے فیثا غورث، فلسفے میں افلاطون۔ غرض ان میں علوم دنیا کی ایسی جامعیت ہو گی کہ شاید ان کی نظیر نہ ہو مگر وہ نہ مذہب کے معتقد، نہ خدا کے بندے، نہ رسول کی امت، نہ بادشاہ کی رعیت، نہ باپ کے بیٹے، نہ بھائی کے بھائی، نہ دوست کے دوست، نہ قوم کے ساتھی، نہ برادری کے شریک، نہ وضع کے پابند، نہ رسم کے مقلد۔
ذرا نظر انصاف سے اس بات کو دیکھوں کہ فی الحقیقت مدرسے کی تعلیم میں ایسے خیالات پیدا کرنے رجحان ہے یا نہیں ہے اور ضرورت ہے اور اس کا سبب ظاہر ہے کہ مختلف مذاہب کے نوجوان لڑکے ایک جگہ جمع رہتے ہیں۔ اپنے اپنے عقائد سے سب کے سب بے خبر عمروں کے تقاضے یہ کہ جہاں اور ہنسی کی باتیں کرتے ہیں ان میں ایک مذہب کا استخفاف بھی سہی اگرچہ اپنا ہی مذہب کیوں نہ ہو۔
مدرسے کے حاکم یا مدرس کچھ مذہب کی پروا کرتے ہی نہیں اپنے لیے بھی بعض یا اکثر اس لیے کہ خود کسی مذہب کے قائل نہیں۔ وظیفہ یا انعام یا دوسرے موحیات ترغیب مذہب پر کسی کا انحصار نہیں۔ علوم جو پڑھائے جاتے ہیں اکثر جدید زمانہ حال کے۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس میں متقدمین کی غلطی جس میں سابقین کی خطا ظاہر نہ کی جائے اور ایک بڑی خرابی آکر یہ پڑی ہے کہ بہت سی باتیں ہیں تو علوم دنیا سے متعلق مگر لوگوں کی غفلت یا بے مبالاتی سے داخل مذہب ہیں۔
گورے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے باپ دادا جو مذہباً ایسی لغو اور بیہودہ باتوں کو تسلیم کرتے چلے آئے نرے احمق تھے اور ان کا مذہب ہی سراسر ہیچ اور پوچ ہے ایک خرابی اور ہے اور وہ ہے علوم جدیدہ جن کا مدارس میں بڑا زوروشور ہے، سب ہیں از قسم بدیہات مشاہدات پر مبنی اور تجربات پر مشتمل۔
ایسے علوم پڑھتے پڑھتے طالب علموں کو اس بات کی عادت پڑ جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کا ثبوت ایسا ہی ڈھونڈنے لگتے ہیں جیسے اقلیدس کے دعوؤں کا۔
ایک مذہب یا مذہبی باتوں کے لیے ایسا ثبوت نہ ہوا ہے اور نہ ہونا ممکن ہے۔ حضرت موسیٰ سے بھی یہود ایسی ہی بے جا فرمائشیں کرتے تھے کہ ہم تو جب تک خدا کے کھلے خزانے نہ دیکھ لیں تجھ پر ایمان لانے والے ہیں نہیں لیکن یہ مذہب کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی ضعف خلقت کے سبب۔ کیا اگر موسےٰ خدا کا دیدار یہود کو نہ دکھا سکے تو اس سے لازم آگیا کہ خدا نہیں ہے۔
نہیں خدا تو ہے مگر وہ آدمی کی آنکھوں میں آنے کی چیز نہیں۔ مدارس کی تعلیم بلکہ سچ پوچھو تو عمل داری کا خلاصہ ہے۔ آزادی۔ بلاشبہ آزادی ہر ایک فرد بشر کا ایک ضروری حق ہے۔ مگر آزادی کی بھی کوئی حد ہونی ضرور ہے۔ آدمی کی بناوٹ اس طرح کی واقعی ہوئی ہے اور آدمی فی حد ذاتہ اس طرح کا مخلوق ہے کہ آزادی مطلق تو اس کو حاصل ہونی ممکن نہیں اور مناسب بھی نہیں۔
کیا آزاد ہو سکتا ہے وہ بندئہ ناچیز جس کا ہونا اور نہ ہونا اس کے اختیار میں نہیں۔ غیروں کا محتاج دوسروں کا دستِ نگر پہننے میں، کھانے میں، پینے میں، مرنے میں، جینے میں، چند منٹ کے لیے ہوا نہ ملے تو ہلاک۔ ایک وقتِ خاص تک غذا نہ پہنچے تو فنا، تڑاقے کی دھوپ کا تحمل نہیں۔ کڑاکے کی سردی کی برداشت نہیں۔ حالت تو اس قدر خستہ و خراب اور اس پر آزادی کا پرسُر خاب وہی مثل ہے۔
جھونپڑے کا رہنا اور محلوں کے خواب:
باندھتے ہیں سرو کو آزاد اور وہ پابہ گل
کیسی آزادی کہ یاں یہ حال ہے آزاد کا
میں اس میں لڑکوں کا زیادہ قصور نہیں پاتا سارا قصور ان کی تعلیم و تربیت کا ہے گھڑی جو تمہاری جیب میں ہے اس میں فولاد کی ایک کمانی کنڈلی کے طور پر تہ کی ہوئی موجود ہے۔ کنجی کے زور سے کمانی کی تہوں کو خوب کس دیتے ہیں، اسی کو کوکنا کہتے ہیں۔
کوکنے سے کمانی میں ایک قوت پیدا ہوتی ہے۔ کمانی چاہتی ہے کہ کھلے اور اپنی اصلی حالت پر عود کر آئے۔ اگر کوئی چیز مانع نہ ہو تو کمانی سڑسے دم کے دم میں ڈھیلی پڑ جائے اور وہ قوت جو اس میں پیدا کی گئی تھی اکارت ہو اس کے روکنے کے لیے گھڑی میں ایک پرزہ لگایا جاتا ہے جس کا نام ہے ریگولیٹر اور اس قوت سے وقت کی شناخت کا علیحدہ کام لیا جاتا ہے، یہی حالت ہے انسان کا کہ اس میں بھی ایک حالت کے مناسب خدا کی دی ہوئی چند قوتیں ہیں اگر ان قوتوں کا کوئی روکنے والا ریگولیٹر نہ ہو تو یہ تمام قوتیں بے کار ہیں بلکہ بجائے مفید ہونے کے الٹی مضر۔
انسان کا ریگولیٹر ہے۔ مذہب جو اس کو اندازئہ مناسب اور اعتدال سے گھٹنے بڑھنے گرنے ابھرنے نہیں دیتا۔ مدرسوں کی تعلیم کوک ہے اور ریگولیٹر نہ دارد، پس اس کا ضروری نتیجہ ہے کہ آزادی کا خیال دل میں سماتے ہی لوگ ہر طرح کے قیود سے نکلنے کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ قید عبودیت سے بھی۔ سرے سے مدرسے کی تعلیم کے اصول ہی غلط ہیں کہ صرف دنیاوی علوم کے پڑھا دینے سے آدمی دنیا کے کام کا ہو جاتا ہے۔
اس سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ دنیا اور دین دو چیزیں ہیں، جداگانہ ایک کو دوسرے سے کچھ تعلق نہیں، ہم نہیں جانتے کہ جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں دین سے کیا مراد رکھتے ہیں۔
مگر ہمارے نزدیک بلکہ تمام اہل ادیان کے نزدیک دین کے معنے ہیں، انسان کی اصلاح اور اس کے دو حصے ہیں، اصلاح معاش اور اصلاح معاد۔ پس دین اور دنیا میں اگر ایک طرح کی منطقی مغائرت ہے جیسے عموماً کل و جز میں ہوا کرتی ہے تو اس کو تبائن یا تناقض یا تنا فریابے تعلقی سے تعبیر کرنا مغالطہ ہی ہے۔
کتنا ہی پڑھاؤ جب انسان میں دین نہیں دیانت نہیں اس پر بھی اگر وہ آدمی دنیا کے کام کا ہے تو اس دنیا کو خیرباد ہے اور اس دنیا کو سلام۔ ایک بات تعلیم کے متعلق اور بھی سوچنے کی ہے کہ انسان کو دوسرے حیوانات سے ایک وجہ امتیاز یہ بھی ہے کہ حیوانات کو جتنی عقل دی گئی ہے فطری ہے۔ تجربے یا امتداد عمر سے اس میں ترقی نہیں ہوئی مثلاً بیا گھونسلا بناتا ہے، کیسا عمدہ کہ انسان اس کی اگر پوری پوری نقل کرنا چاہے تو نہیں بن پڑتی مگر جیسا گھونسلا ایک بڈھا بیا بناتا ہے جو اپنی عمر میں شاید بیس پچیس گھونسلے بنا چکا ہو گا۔
بجنسہ ویسا ہی گھونسلا پہلی بار ایک نوجوان بیا بنائے گا جو برخلاف انسان کے ہے کہ اس کی عقل تجربے اور عمر کے ساتھ کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ اس مضمون کو سعدی نے کیا زبردست طور پر ادا کیا ہے:
مرغ ازبیضہ بروں آیدور ذری طلبد
آدمی زادہ نہ دار و خرد و عقل و تمیز
آں نباگاہ کسے گشت و بچیزے نہ رسید
ویں بہ تمکین و فضیلت بگزشت از ہمہ چیز