فسانہء مبتلا/12

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

آٹھواں باب :میرمتقی کی مبتلا کے اُمور خانہ داری کی اصلاح میں کوشش

متقی کا ارادہ تو یہ تھا کہ بھائی سے مل کر ہفتہ عشرہ رہ کر رام پور روانہ ہوں گا مگر سوچا کچھ اور ہوا کچھ۔ یہاں آکر دیکھا تو بھائی کو مرے ہوئے چھ مہینے ہو چکے تھے اور بھتیجے صاحب نے وہ اودھم مچا رکھی تھی کہ خدا کی پناہ۔ دو تین مہینے بھی متقی کے پہنچنے میں دیر ہوتی تو تنخواہوں کا، کرائے کا، رہنے کے موروثی مکان کا، خاندان کی عزت و آبرو کا بزرگوں کے نام و نمود کا سب کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

باپ کا بیمار پڑنا اور مبتلا کا مدرسے سے اٹھنا۔ وہ دن اور آج کا دن اس بندئہ خدا نے بھول کر بھی تو مدرسے کو یاد نہ کیا۔ شروع شروع میں دوچار ہم جماعت بلانے کو آئے۔

بعض مدرسوں نے بھی کہلا بھیجا۔ مبتلا کس کی سنتا تھا۔ رخصت کی غیر حاضری ہوئی اور غیر حاضر ہونا تھا کہ نام کٹ گیا۔ بیٹھے بٹھائے اچھا معقول وظیفہ کھویا اور بات کی بات میں آئندہ کی ساری امیدیں ایک دم سے منقطع ہو گئیں۔

جن جن سرکاروں سے تنخواہیں مقرر تھیں ضرور تھا کہ پیروی کر کے وارثوں کے نام ان کا اجرا کرایا جائے مگر یہاں پیروی کرے تو مبتلا اور نہ کرے تو مبتلا اگر باپ کے مرنے پر مبتلا ان سرکاروں میں جاتا تو جن سرکاروں کا جیسا دستور تھا کہیں سے ماتمی خلعت، کہیں سے نقد کچھ نہ کچھ ملتا اور تنخواہ بھی کہیں سے پوری کہیں سے ادھوری جاری ہوتی۔

مگر مبتلا کو اپنے مشاغل لا یعنی سے اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ ان باتوں کو سوچے اور خلعت یا نقد یا تنخواہ کے لیے سرکاروں میں دوڑ دھوپ کرے۔

غرض جتنے معمولات تھے سب بند ہو گئے اب آمدنی کے نام سے تو رہ گیا صرف کرایہ۔ اول تو وہ تھا ہی کتنا مگر خیر جس قدر تھا۔ اس کا بھی یہ حال ہوا کہ کسی کے دو روپے دینے ہیں اس نے مانگنے نہ مہینہ دیکھا نہ حساب نہ کتاب نہ قلم اٹھا کسی کرایہ دار کے نام چٹھی لکھ دی کہ اس کو دو روپے دے کر کرایہ میں مجرا کر لو۔ اب وہ چٹھی والا کرایہ دار کے سر ہوا۔ ہر چند وہ کہتا جاتا کہ بھائی ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا۔

میں نے اپنی گرہ سے مرمت کرائی ہے۔ چٹھی والا ہے کہ ایک نہیں سنتا۔ کرایہ داروں نے دیکھا کہ الٰہی شہر میں ہزار ہا مکان اور لاکھوں دکانیں ہیں۔ یہ چٹھی کا انوکھا اور نرالا دستور نہ دیکھا نہ سنا۔ ایک میر صاحب تھے۔ اللہ بخشے کہ ایک مہینے کا کرایہ دوسرے مہینے میں اور دوسرے کا تیسرے میں وصول ہوتا رہتا تھا۔ بے چارے کبھی ایک سخن بھی تو زبان پر نہیں لائے۔

انہیں کے صاحبزادے ہیں کہ بے حساب بیٹھے بیٹھے چٹھیاں اڑاتے ہیں۔ گویا کہ کوتوالی کے پروانے ہیں یا تھانے کے حکم نامے غرض اکثروں نے بیدل ہو کر مکان خالی کر دیئے اور اٹھ کر کہیں اور جا رہے ہیں اور جائیداد اس قدر بدنام ہو گئی کہ کوئی دوسرا کرایہ دار رُخ نہیں کرتا۔ مبتلا کے ہاتھ لگ گیا تھا ماں کا زیور اسی میں یہ تمام گل چھرے اڑا رہے تھے۔

پونے دو ہزار کا زیور اس مرحومہ کا تھا، چھ مہینے میں سب خالصے لگ چکا۔ اب مہینے سوا مہینے سے ادھار پر گزران تھی، متقی نے جو یہ حالت بھائی کے گھر کا دیکھا تو کیونکر ممکن تھا کہ ان لوگوں کو ایسی حالت میں چھوڑ کر چلا جائے۔ ناچار رام پور کا ارادہ سردست فسخ کیا اور مبتلا کو ساتھ ساتھ سرکاروں میں لیے لیے پڑا پھرا۔ کسی کے کار پرداز سے سازباز کی۔

کسی کے داروغہ کو جاگا نٹھا۔ سفارش پہنچائی اور سعی کے مقام پر سعی کرائی، بعض جگہ اپنی وجاہت سے کام نکالا اور جہاں موقع بن پڑا بھائی کے حسن خدمات پر زور ڈالا۔ غرض کئی مہینے کی دما دوش سے اتنا ہوا کہ مبتلا کے والد میر مذہب کی زندگی میں جتنی تنخواہیں تھیں بلا کم و کاست پوری پوری کھل گئیں بلکہ بعض سیرچشم سرکاروں نے پچھلے چھ مہینے کی چڑھی ہوئی تنخواہیں بھی بلاوضعات دیں، میرمتقی نے ایک پیش بینی یہ کی کہ جس قدر ذاتی تنخواہ تھی یعنی بلا خدمت بطور معاش ملی تھی۔

اپنی بھانجی غیرت بیگم یعنی مبتلا کی بی بی کے نام جاری کرائی اور تنخواہ مشروط الخدمت مبتلا کے نام۔ اس میں مصلحت یہ تھی کہ بی بی کے آگے مبتلا کی ذرا کنی دبی رہے۔ تنخواہوں کا پچھلا چڑھا ہوا روپیہ جس قدر ملا اس سے مکانات اور دکانات کی شکست و ریخت کی درستی کرا کے کرایہ داروں کو بسا کر ان کے سر خط بھی آدھے کرائے کہ مبتلا کے نام اور آدھے غیرت بیگم کے نام لکھوا دیئے۔ میرمہذب کے روز وفات سے آج تک بیوتات کا حساب بننے کے لیے یہاں سے ادھار چلا آتا تھا۔ حساب کر کے اس کا قرضہ چکایا اور آئندہ کے لیے ادھار کو مطلقاً بند کر کے یہ قائدہ باندھ دیا کہ جو چیز درکار ہو وہ نقد بازار سے آ جایا کرے۔