فسانہء مبتلا/11

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

کیا کوئی فانی ایک فانی حالت کے لیے اتنا غل مچاتا اور اس قدر روتا پیٹتا، مصیبت پر جو منفعت ہم نے ہمیشہ مترتب ہوتے دیکھی، حد تو یہ ہے کہ مصیبت آدمی کے مستقبل کو اس کی ماضی سے ضرور بہتر کر دیتی ہے یعنی اگر انسان کاہل تھا تو مصیبت کے بعد ضرور چست و چالاک ہو جاتا ہے۔ آرام طلب تھا تو جفاکش، بھولا تھا تو سیانا، مسرف تھا تو کفایت شعار، بدپرہیز تھا تو محتاط، جلد باز تھا تو دھیما۔

آوارہ تھا تو نیک کردار جس آدمی پر کبھی مصیبت نہیں پڑی نہ اس کی عقل کا ٹھکانہ، نہ اس کی رائے کا بھروسہ، نہ اس کا دین درست، نہ اس کے اخلاق شائستہ۔ اس کے علاوہ اس کا دستور ہے کہ ایک حالت کیسی ہی عمدہ کیوں نہ ہو، اگر ساری عمر یکسانی کے ساتھ چلی جائے تو اس حالت کی عمدگی کا احساس نہیں رہتا بلکہ اکتا کر خود اس حالت سے نفرت کرنے لگتا ہے۔

ایک باورچی کو میں جانتا ہوں جو نمکین اور میٹھے چاول یعنی بریانی متنجن وغیرہ پکانے میں کامل استاد تھا۔

شہر میں کہیں نہ کہیں شادی یا غمی کی کوئی نہ کوئی تقریب لگی ہی رہتی تھی جس کے یہاں چاولوں کی پخت ہوتی اسی باورچی سے پکواتا اور اس کو مزدوری کے علاوہ دستور کے مطابق تہ دیگی کی چوٹی دار رکابی بھی ملتی وہ ایک رکابی ایسی ہوتی تھی کہ اس کا سارا گھر اس کو کھا کر اٹل ہو جاتا۔ پس ان لوگوں کو دونوں وقت عمدہ سے عمدہ بریانی اور بہتر سے بہتر متنجن کھانے کو ملتا تھا۔

پس یہ حالت تھی کہ کسی غریب آدمی کے سامنے جو بریانی متنجن کو ترستا ہو۔ بیان کیجیے تو سننے کے ساتھ ہی رال ٹپک پڑے مگر اس باورچی اور اس کے اہل و عیال کا کیا حال تھا کہ منتیں کر کے بریانی متنجن کی رکابیاں ہمسائے کے لوگوں کو دیتے اور ان سے روٹی چٹنی مانگ کر کھاتے۔ پس ہم نے تندرستی کی قدر بیماری سے جانی، وطن کی پردیس سے، تونگری کی مفلسی سے، آرام کی دُکھ سے، راحت کی مصیبت سے، تو جو شخص حقیقی راحت کا خواہاں ہے ضرور ہے کہ مصیبت کا بھی مزہ چکھے۔

مصیبت زدہ کے لیے سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ وہ دوسرے مصیبت مندوں پر نظر کرے۔ مثلاً اگر اس کو صرف بیوگی کی شکایت ہے تو پائے گی کہ اس جیسی اور اس سے بدتر لاکھوں بیوہ عورتیں اور بھی ہیں۔ شاید یہ ایک مدت خانہ داری کرنے کے بعد بیوہ ہوئی ہے اور ہزار ہا اللہ کی بندیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے شوہر کی صورت تک نہیں دیکھی۔ پس وہ بیوگی کے علاوہ لاولد بھی ہیں اور شاید ان کو روٹی کا بھی کہیں سے آسرا نہ ہو۔

نگھری ندری بھی اور شاید دکھیا، بیمار اور شاید اندھی اور لولی اور اپاہج بھی، کسی کو اگر کھجلی کی ایذا ہے تو وہ دیکھے گا اپنے ہی جیسے آدمی کوڑھی اور کوڑھ میں کیڑے اور کیڑوں کے ساتھ زخم اور زخموں میں سوزش العیاذ باللہ جس کی آنکھ میں ناخنہ ہے۔ کیا اس کو اس سے تسلی نہیں ہو گی کہ دوسروں کی آنکھ میں ٹینٹ یا دوسرے کانے بلکہ اندھے بھی ہیں۔

غرض دنیا کا حال یہی ہے کہ ایک سے ایک بہتر ہے۔ پس کیوں کوئی مغرور ہو اور ایک سے ایک بدتر ہے تو کس لیے کوئی ناصبور ہو۔ بیٹی میں یہ نہیں کہتا کہ تم پر مصیبت نہیں پڑی۔ مگر اس مصیبت پر جو تمہاری حالت ہے شکر کے قابل ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے تندرست ہو۔ عزت و آبرو کے ساتھ گھر میں بیٹھی ہو۔ تم نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ تم نے دروازے دروازے بھیک نہیں مانگی تم نے پیٹ کے واسطے کسی کی خدمت نہیں کی ٹہل نہیں کی۔

گو ماں باپ کو خدا نے اٹھا لیا۔ مگر ابھی تمہارے غمگسار، تمہارے خبر گیر تمہارے سرپرست موجود ہیں اور ان میں سے ایک میں بھی ہوں کہ باپ جتنی نہیں کروں گا لیکن اس سے پورا اطمینان رکھو کہ انشاء اللہ اپنے مقدور بھر تمہارے حال کی اصلاح تمہارے معاملات کی درستی میں کس طرح کی کوتاہی بھی مجھ سے نہ ہو گی۔ لاؤ اسی شہر سے بلکہ اسی محلے سے بلکہ اسی کوچے سے بلکہ تمہارے پڑوسی جتنی عورتیں کہو بلا لاتا ہوں جن کو دیکھ کر تم ضرور رحم کرو گی اور سمجھو گی کہ یہ مجھ سے زیادہ دکھیا ہیں۔

ایک حکیم کا قول ہے کہ دنیا میں ہر شخص خوش ہے اس واسطے کہ وہ اپنی حالت کو کسی دوسرے کی حالت کے ساتھ بدلنا نہیں چاہتا۔ جس دن پہلے پہل میں نے یہ بات کتاب میں لکھی دیکھی تو میں ذرا اس پر ٹھٹکا۔ پھر میں نے سوچا کہ اس کو میں اپنے ہی اوپر کیوں نہ آزماؤں تو میں نے اپنی جان پہچان کے پانچ چھ آدمی تجویز کیے۔ جن کی حالت تو بنظر ظاہر میں اپنی حالت سے بہتر سمجھتا تھا۔

لیکن اچھی طور پر غور کیا تو ایک لاولد تھے۔ دوسرے بیٹے تو رکھتے تھے۔ مگر ناہموار۔ تیسرے دائم المرض۔ چوتھے شدت سے کنجوس۔ پانچویں بیوی کی بدمزاجی اور بدسلیقگی اور بدزبانی سے عاجز چھٹے لامذہب۔ غرض کسی کو بے داغ نہ پایا۔ تب اس حکیم کے مقولہ کی تصدیق اور میرے دل کی تشفی ہوئی اور پھر ایک بات اور بھی سوچنے کے قابل ہے کہ غم کیسا ہی سخت اور صدمہ کتنا ہی بھاری کیوں نہ ہو۔

رفتہ رفتہ خود بخود اس کا اثر مضمحل ہوتے ہوتے آخر کار محو ہو جاتا ہے۔ کبھی ہمارے باپ بھی مرے تھے ہم بھی ان کے فراق میں تمہاری طرح بہتیرا روئے دھوئے۔ غمگین اور اداس رہے۔ آخر بھول بسر گئے۔ غرض انسان کو چارو ناچار صبر تو کرنا پڑتا ہے کیا کرے دیوار سے سر ٹکرا کر کنوئیں میں گر کر، افیون کھا کر حرام موت مر رہے۔ مگر اس کو صبر محمود نہیں کہتے۔

صبر محمود وہی ہے کہ نزول مصیبت کے وقت ہو۔ جب کہ رنج دل کو نچوڑتا اور کلیجے کو کھرچتا ہے۔ آنسو ہیں کہ نکلے چلے آتے ہیں اور سانس ہے کہ پیٹ میں نہیں سماتا۔ وہ بندے کے لیے سخت آزمائش کا وقت ہے۔ معاذ اللہ اگر خدا کی شان میں شکایت کا کوئی کلمہ اس کے منہ سے نکل گیا یا اس کے دل میں خدا کی نسبت بے حمی یا بے انصافی کا خیال وسوسے کے طور پر بھی آگیا۔ تو بس دنیا خراب عاقبت برباد۔ متقی نے جو یہ باتیں عقل کی دین کی نصیحت کی بیان کیں تو بھانجی پر ایسا اثر ہوا کہ گویا گرتی ہوئی دیوار کو تھونی لگا دی۔ ڈوبتے ہوئے کو اُٹھا کر کنارے پہنچایا۔ مرجھائے درخت کو پانی دیا۔