فسانہء مبتلا/08

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

چھٹا باب: مبتلا کے چچا کی حج سے واپسی

مبتلا کے حقیقی چچا میر متقی ایک مدت سے نواب رام پور کی سرکار میں نوکر تھے اور وہیں ایک شریف خاندان میں انہوں نے اپنا نکاح بھی کر لیا تھا۔ مبتلا ان دنوں مکتب میں پڑھتا تھا کہ میرمتقی دلی ہو کر بھائی سے ملتے ہوئے حج کو گئے۔ ارادہ تو صرف حرمین شریفین کی زیارت کا کر گئے تھے مگر وہاں پہنچ کر یہ خیال ہوا کہ سالہاسال کے ارادے میں تو اب بمشکل گھر سے نکلنا ہوا کیا معلوم اب زندگی میں پھر یہاں آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔

لگتے ہاتھوں جہاں تک ہو سکے زیارتیں تو کر لو۔ پورے تین برس تو زیارتوں میں لگے۔ پھر تین برس تک متواتر ایسا اتفاق پیش آگیا کہ جب واپسی کا ارادہ کرتے تھے۔ بیمار ہو جاتے تھے۔

غرض ساتویں برس لوٹے تو بمبئی میں پہنچ کر انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ بھوپال میں استاد سے احمد آباد میں پیر سے اور دہلی میں بھائی سے ملتا ہوا رام پور جاؤں گا۔ دہلی میں داخل ہوئے تو تھوڑی رات ہوگئی تھی سیدھے بھائی کے دروازے پر آکھڑے ہوئے۔

کیا دیکھتے ہیں کہ پھاٹک بند اور طبلے کی تھاپ کی آواز چلی آرہی ہے۔ سمجھے کہ ناچ ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں بڑے زور کے قہقہے سنائی دیئے معلوم ہوا کہ بھانڈ نقلیں کر رہے ہیں۔ میرمتقی کو پہلے ذرا سا دھوکا ہوا کہ میں نے گھر کی شناخت میں تو غلطی نہیں کی، گلی کے نکڑ تک لوٹ کر گئے۔ ادھر دیکھا ادھر نگاہ کی۔

بے شک سات برس کے عرصے میں تھوڑے بہت تغیرات بھی ہوئے مگر نہ اس قدر کہ جہاں آدمی پیدا ہوا، پرورش پائی بڑا ہوا رہا سہا اس گھر کو نہ پہچانے۔

پھر خیال ہوا کہ شاید بھائی نے اس گھر کو چھوڑ دیا ہو۔ اسی سوچ میں کھڑے تھے کہ ایک شخص گلی کی طرف لپکا ہوا چلا آرہا تھا۔ جب ان کے برابر آیا انہوں نے اس سے پوچھا کیوں صاحب یہ کونسی گلی ہے۔ وہ یہ کہتا ہوا اپنی دھن میں چلا گیا کہ اس کو سادات کا کوچہ کہتے ہیں۔ اب ان کو اس کا تو یقین کامل ہو گیا کہ گھر کے پہچاننے میں مجھ سے غلطی نہیں ہوئی۔ اب اتنی بات اور رہ گئی کہ بھائی اس گھر میں ہیں یا نہیں۔

اس شخص کی جلدی نے ان کو اس کے پوچھنے کی مہلت نہ دی، اتنے میں دیکھا کہ ایک بوڑھے سے آدمی بغل میں بچھونا دبائے لکڑی ٹیکتے ہوئے اندر گلی سے آہستہ آہستہ چلے آرہے ہیں۔ ان سے تھوڑی دور پیچھے ایک جوان سا آدمی ہے اور وہ ذرا تیز چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ جب بڑے میاں کے برابر آیا تو کہنے لگا کہ اے حضرت خیر ہے۔ یہ اس وقت آپ بچھونا لئے ہوئے کہاں جا رہے ہو۔

لائیو بچھونا مجھ کو دیجیے میں پہنچا دوں۔ بڑے میاں نے کہا۔ نہیں بھائی تم کیوں تکلیف اٹھاؤ بچھونے میں ایسا کیا بوجھ ہے۔ کیا کریں جب سے بے چارے میر مہذب مرے ان کا لڑکا خدا اس کو نیک ہدایت دے۔ بُری صحبت میں پڑ کر ایسا آوارہ ہو رہا ہے کہ سارے سارے دن اور ساری ساری رات گھر میں دھما چوکڑی مچی رہتی ہے۔ ہم ٹھہرے دیوار بیچ ان کے پڑوسی اتنا نہیں بن پڑتا کہ گھر میں دورکعت نماز اطمینان سے پڑھی جائے۔

ناچار میں تو اس مسجد میں چلا جاتا ہوں۔

متقی بھائی کے مرنے کی خبر سن کر قریب تھا کہ چکر کھا کر وہیں زمین پر گر پڑے مگر آدمی تھا دین دار، اس نے ضبط کیا اور اپنے تئیں سنبھالا اور سوچا کہ اگر گھر چل کر دستک دوں پکاروں تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا اور فرض کیا چیخنے چلانے سے دروازہ کھلا بھی تو رات گئی ہے زیادہ سب کو تکلیف ہو گی۔

رونا پیٹنا مچے گا۔ ماتم برپا ہو گا۔ بہتر ہے کہ رات کو کہیں پڑا رہوں۔ پھر خیال کیا کہ پاس کے پاس اسی مسجد میں ٹھہر جانا مناسب ہے کہ بڑے میاں سے اور حالات بھی دریافت ہوں گے۔ مسجد میں گیا اور وضو کر کے نماز پڑھی، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ بھائی سے اس کو محبت تھی بہت، یوں بھی ہمیشہ غائبانہ اس کے حق میں دعائے خیر کیا کرتا تھا۔ اب جی بھر آیا اور بے اختیار اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی۔

جس کے دل کو یکایک اتنا بڑا صدمہ پہنچا ہو اس کو بھوک کیا لگے اور نیند کیونکر آئے۔ ساری رات گزر گئی کہ صحن مسجد میں ننگے سر بیٹھا ہوا۔ کبھی کچھ پڑھ کر بھائی کے روح کو بخشتا ہے اور کبھی اس کی مغفرت کے لیے خدا کی درگاہ میں زار نالی کرتا تھا۔ سفیدئہ صبح نمودار ہوتے ہی اول وقت فجر کی نماز پڑھی اور پھر اشراق تک معمولی اوراد میں مشغول رہا۔

جب نمازِ اشراق سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ بڑے میاں بھی اپنا بچھونا لپیٹ لپاٹ کر گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کو ضعیفی کے سبب ذرا دھندلا بھی نظر آتا تھا۔ متقی نے ان کو پہچان کر السلام علیک اور قریب جا کر اپنے تئیں پہچانوایا اور رات کا ماجرا کہہ سنایا۔ ملے تو میر مہذب کی صحبتوں کو یاد کر کے بڑے میاں بھی آب دیدہ ہوئے اور متقی تورات سے رو رہا تھا۔

سفر کی تکان، ساری رات کا فاقہ، جاگنا اور رونا آنکھیں سوج گئی تھیں، منہ سے آواز نہیں نکلتی تھی۔ بارے بڑے میاں نے بہت کچھ سمجھایا دنیا کے دستور کے مطابق صبر کی تعلیم کی اور کہا کہ میاں مرحوم تو اللہ کے نیک بندے تھے۔ یہاں بھی اپنی اچھی گزار گئے اور انشاء اللہ وہاں بھی ان کے لیے اچھا ہی اچھا ہے۔

وہ اگر مرے تو اپنی عمر سے مرے اور ایک نہ ایک دن سبھی کو مرنا ہے۔

بڑا رونا ان کے فرزند ناخلف کا ہے کہ اپنے کردار ناسز اسے مرحوم کی روح کو ایذا دے رہا ہے۔ اب تم باپ کی جگہ ہو۔ اس کو سنبھالو اگر ہو سکے، اس کو روکو اگر بن پڑے۔ گھر کے نصیب اچھے ہیں کہ تم آپہنچے۔ خدا کو کچھ بھلا کرنا منظور ہے کہ تم کو بھیجا۔ ابھی وقت ہے۔ اگرچہ تنگ ہے۔ موقع ہے گو اخیر ہے اور تم یہاں مسجد میں اکیلے بیٹھ کر کیا کرو گے۔ میرے ساتھ چلو تمہارے بھتیجے صاحب تو کہیں دوپہر تک اُٹھیں گے وہ بھی اٹھائے سے تب تک میرے گھر کچھ ناشتہ کرو ہم بھی کچھ غیر نہیں ہیں۔

تمہارے بھائی صاحب خدا ان کو جنت نصیب کرے ہم کو عزیزوں سے بڑھ کر سمجھتے تھے، کیا تم کو یاد نہ ہو گا۔ غرض میر متقی بڑے میاں کے ساتھ ساتھ چلے تو سارے رستے بھائی کا تصور پیش نظر تھا اور قدم قدم پر ایسا خیال ہوتا کہ بھائی سامنے سے چلے آرہے ہیں پیچھے سے پکار رہے ہیں۔ اس دروازے پر کھڑے باتیں کر رہے ہیں اس دوکان والے سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ اتفاقات متقی کو بھائی کی زندگی میں صد ہا بار پیش آچکے تھے ان ہی باتوں کی یادداشت اب تازہ ہو گئی متقی رات سے بہتیرا رو بھی چکا تھا اور اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب رونا آئے گا بھی تو روکوں گا۔

ضبط کروں گا مگر جوں جوں گھر کی طرف پاؤں اٹھتا تھا۔ دل کی کیفیت متغیر ہوتی چلی جاتی تھی۔

یہاں تک دروازے پر پہنچ کر تو نہ تھم سکا اور بے اختیار پکار کر رویا۔ رونے کی آواز سن کر پاس پڑوس کے لوگ جمع ہو گئے۔ پھاٹک تو باہر کی طرف سے نہ کھلوا سکے، اندر ہی اندر کھڑکی کی راہ پہلے زنان خانے میں اور پھر مردانے میں خبر پہنچی۔ مبتلا اور اس کے جلسے کے شرکاء ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ کہاروں کی طرح ناچ جو کہروا کہلاتا ہے، دیکھ کر اور صبح کا راگ بھیرویں سن کر سوئے تھے۔

میرمتقی کا آنا سن کر سب کی نیندیں اچاٹ ہو گئیں اور سب کے ہوش اڑ گئے۔ جو لوگ اب سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے بھانڈوں اور رنڈیوں کو نچوا رہے تھے۔ اب لگے آپ، ناچے ناچے پڑے پھرنے چاہتے تھے کہ نکل بھاگیں مگر راستہ کہاں تھا۔ پھاٹک پر تو خود میرمتقی صاحب اور ان کے ساتھ محلے کے چالیس پچاس آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ زنان خانے میں ہو کر جانا چاہتے تھے تو پہلے مہرے پر گھر والی تھی کہ وہ میاں کے سامنے تو لومڑی یا بھیگی بلی جو کچھ تھی سو تھی مگر ان بدذاتوں کے حق میں خاص کر اس وقت شیرنی سے کم نہ تھی۔ اس کے علاوہ زنان خانے سے اگر باہر جانے کا راستہ تھا تو دوسرے لوگوں کے گھروں میں سے ہو کر تھا۔ وہ بھلے مانس ان بلاؤں کا اپنے یہاں سے ہو کر گزرنا کیوں جائز رکھتے۔