فسانہء مبتلا/07

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

پانچواں باب :مبتلا کی بدکرداریاں اور مصیبتوں کا آغاز

بیاہ تک مبتلا کی زندگی نہایت ہی بے فکری سے گزاری۔ اس نے چودہ برس کی عمر تک گھر میں ایسے عیش و آرام کے ساتھ پرورش پائی کہ کم تر کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ مدرسے میں اس کے یار دوستوں نے ماں باپ سے بڑھ کر اس کی ناز برادریاں کیں۔ مگر اب اس کے عیش کی مدت، آرام کی مہلت پوری ہو چکی تھی اور یہی حال ہے دنیا کی تمام حالتوں کا کہ راحت ہے تو ایک وقت خاص تک اور مصیبت ہے تو وہ بھی ایک میعادِ مقررہ تک، نہ اس کو ثبات اور نہ اس کو قیام، وہ عارضی اور یہ چند روزہ جن کو خدا نے عقلِ سلیم دی ہے وہ ہر حالت کو اسی طور پر انگیز کرتے ہیں کہ اس کے زائل ہونے پر ان کو ملال نہ ہو، تاسف نہ کرنا پڑے، اتنا نہیں کھاتے کہ نخمہ ہو۔

ایسے دوڑ کر نہیں چلتے کہ ٹھوکر لگے، عادتوں کو طبیعت نہیں ہونے دیتے اور امور اتفاقی کو ضروری نہیں سمجھ لیتے۔ لیاقت یا ہنر یا صفت یا جوہر یا خوبی یا مابہ الامتیاز یا سرمایہ فخر و ناز یا ذریعہ تعریف یا وسیلہ تقریب جو کچھ سمجھو۔ مبتلا کے پاس ایک حسن صورت تھا اور پس یہی ایک چیز تھی جس کی وجہ سے وہ ہر دلعزیز تھا۔ یہی عمل تھا، یہی تسخیر تھی، یہی کیمیا اور یہی اکسیر تھی۔

مسیں تو اس کی سترہویں برس بھیگنے لگیں تھیں۔ اٹھارہویں میں تو اس کی اچھی خاصی داڑھی نکل آئی۔

گیا حسن خوبانِ دل خواہ کا

ہمیشہ رہے نام اللہ کا

اور داڑھی بھی نکلی تو اس کثرت سے کہ ماتھا اور ناک اور آنکھوں کی جگہ چھوڑ کر کہیں تل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی۔ جب داڑھی نکلنے کو ہوئی اگر مبتلا اس کو اس کے طور پر نکلنے دیتا تو برس سوا برس وہ اور بھی حسینوں کے زمرے میں گنا جاتا اور سبزئہ خط اس کی گوری رنگت پر خوب کھلتا مگر اس نے غلطی یہ کی کہ روئیں نمودار ہوتے ہی استرا پھروا دیا۔

استرے کا پھروانا تھا کہ پھدپھدا کر ایک کی جگہ دس روئیں اور روؤں کی جگہ کالے کرخت بال بھی پڑے اور چہرے کی جلد پر جو جوانی کی چمک یا شباب کا ایک قدرتی روغن تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا، اب روکھی کھال رہ گئی اور اس پر ہزار ہا بال۔ یہ پہلی مصیبت تھی جو مبتلا پر نازل ہوئی اور اس نے اس پہلی کیفیت کے اس قدر جلد زائل ہو جانے کا سخت رنج کیا اور جب اس کے ان دنوں کے خیالات پر نظر کی جاتی ہے تو اس کا رنج حق بجانب بھی تھا۔

رفتہ رفتہ زوال حسن کا اثر اس کی حالت پر مترتب ہونے لگا جو لوگ اس کی ملاقات کے مشتاق رہتے تھے، نفرت اور جو درپے تھے گریز کرنے لگے۔

یار اغیار ہو گئے اللہ

کیا زمانے کا انقلاب

گرم صحبتوں کی جگہ صاحب سلامت رہ گئی وہ بھی دور کی۔ اختلاط کے عوض راہ گزر کی مڈ بھیڑ وہ بھی اتفاقی۔ اس کی طرز زیست نے ادعائی ضرورتوں کو اور ادعائی ضرورتوں نے خرچ کو اتنا بڑھا دیا تھا کہ مدرسے کا وظیفہ اور اس کا چہار چند بمشکل وفا کرتا۔

اب ادھر تو اس کے اعوان و انصار دست کش ہوئے ادھر جو گھر سے مدد ملتی تھی۔ اس میں بی بی نے حصہ بٹوانا شروع کیا۔ ضرورتیں اگر جائز اور واجبی ہوتیں گھر سے مدد ملتی۔ مگر حاجتیں ناجائز اغراض بے ہودہ، گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل جی للچاتا اور ناچار ضبط کرتا، طبیعت بھربھراتی مجبوری پتے کو مارتا۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ مصیبتیں ایک ایک ایک کرکے نہیں آتیں یعنی جب آنے کو ہوتی ہیں تو بس ایک تار بندھ جاتا ہے۔

مبتلا کے بیاہ کے بعد سے تو گویا اس کہاوت کے سچے کرنے کو موتیں کچھ ایسی تابڑ توڑ ہوئیں کہ پانچ برس کے اندر ہی اندر جتنے بزرگ تھے۔ مرد کیا عورت ایک کے بعد ایک سبھی رخصت ہوئے۔ بہنیں بیاہی جا کر اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں۔ بس اب تنہا مبتلا رہ گیا اور ایک بی بی۔ وہ بھی اس کی بے التفاتی کی وجہ سے پہلے تو اکثر میکے میں رہتی تھی۔ چوتھے پانچویں مہینے سسرال آگئی تو آگئی۔

اب کوئی برس دن ہوا تھا کہ ماں اور باپ دونوں کے مر جانے سے بھائیوں نے ترکے سے محروم کرنے کے لیے بلانا چاہا۔ مبتلا پر مصیبتوں کا ایسا پہاڑ ٹوٹا تھا کہ اگر وہ بھی ذرا عقل سلیم رکھتا ہوتا تو ساری عمر اس تازیانے کو نہ بھولتا، مگر اس کے دل پر تو مہر لگی ہوئی تھی اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ کیسی عبرت اور کس کا ڈرنا مطلق العنان ہوتے ہی لگا دلکی دوڑنے پویہ بھاگنے۔

یہاں تک کہ جن حرکتوں کو پہلے چراتا چھپاتا۔ اب کھلے خزانے ان کے کرنے میں ذرا بھی نہ شرماتا۔باپ کے مرتے ہی میدان خالی پا کر تعزیت کے حیلے اور غم گساری کے بہانے سے دوست آشناؤں نے پھر اس کو آگھیرا۔ اور پھر وہی اپنی قدیم پٹی اس کو پڑھا چلے، چہلم بھی نہیں ہونے پایا تھا کہ جلسے شروع ہو گئے۔